مجذوب وتایو کی دُعا

0

تحریر: آمیر افضل خان، اپر چترال

اللہ اور بندے کے درمیان رابطے کا جو خوبصورت انداز ہے اسے دعا کہتے ہیں یا یو ں کہیئے کہ اللہ سے مانگنے کو دعا کہتے ہیں ۔ قرآن مجید کا آغاز دُعا سے ہوا ہے اور اختتام بھی دُعا پر۔ قران مجید میں انبیاء کرام کی  دعاؤں کے ذکر  کی نقل ہے  ان کی عبادات کی نہیں۔ اس حوالے سے نبی آخر زمان  ﷺکی احادیث اس طرح ہیں کہ رسول کریم  ﷺ نے فرمایا کہ دُعا مومن کا ہتھیار ہے، دوسری جگہ فرمایا  کہ دُعا ایک عبادت ہے۔ ہمشہ دُعا مانگتے رہو۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے “جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دُعا قبول کرتا ہوں” اگر اللہ تمہاری دُعائیں پوری کر رہا ہے تو وہ تمہارا یقین بڑھا رہا ہے، اگر دُعائیں پوری کرنے میں دیر کر رہا ہے، تو تمہارا صبر بڑھا رہا ہے، اگر تمہاری دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا ہے تو وہ تمہیں آزما رہا ہے۔

قانون قدرت کے خلاف جا کر اگر کوئی چیز اللہ سے کروانے کی کوشش کی جائے، تو  وہ  دُعا  قبولیت  سے عاری  رہے گی  ۔ دُعاؤں سے قدرت کا قانون کبھی نہیں  بدلتا۔  نہ سورج  مغرب سے  طلوع  ہوگا  اور نہ کوئی  دریا  اُلتا  بہے گا  البتہ دُعاؤں سے صرف وہ حالات آپ کے لئے موافق بن سکتے ہیں۔  کائینات  میں  ہرعمل کے وقوع  پذیر  ہونے میں وقت  کا حساب  رکھا گیا ہے مثال کے طور پر آج ایک بچہ پیدا ہوجاتا ہے  اور ا آپ اس  کی جلد نشو نما کے لئے  دعا کرتے ہیں کہ آج ہی یہ  بچہ بڑا ہوجائے تو یہ قانون قدرت کے خلاف ہے، یا آج اپ ایک بچے کو کالج میں داخل کرا کے یہ دُعا کریں کہ آج ہی یہ کوئی بڑا ڈاکٹر بن جائے تو یہ کبھی بھی  ممکن نہیں کیوں کہ  اسکے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ قدرت نے ہر کام کے نتیجے کو سامنے لانے کے لئے وقت مقرر کیا ہے۔ انسان جب کسی منزل کو طے کرنا چاہتا ہے تو اسکی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، کس بھی چیز کے حصول کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے۔  کچھ  دُعائیں  ایسی ہیں جو   ہمیشہ  مانگنے والے  کے خلاف جاتی ہیں   مثال کے طور پر  ہم  میں سے کوئی دوسروں کی بربادی اور اپنی کامیابی کے لئے مانگتا ہے  تو  ایسی دُعا منفی  پر منتج ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے مجزوب وتایو کا مشہور قصہ وسعت الللہ خان کی  تحریر سے اقتباس اپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں

” مجذوب وتایو کا وہ قصہ جو عمر کوٹ کے مولوی ارباب محمد نے بیان کیا تھا، کہ مجزوب وتایو اپنے گائے کے لئے جو چارہ اکٹھا کرتا تھا ہمسائے کا گدھا اُسے کھا جاتا تھا۔ وتایو نے تنگ آکر ایک صبح آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر ہمسائے کے گدھے کے مرنے کی دعا مانگی، اگلی صبح مجذوب وتایو نے دیکھا کہ اس کی گائے مری پڑی ہے اور ہمسائے کا گدھا آس پاس ٹہل رہا ہے، مجذوب وتایو ایک نابینا شخص کو پکڑ کے لایا اور اس کا ہاتھ گائے کی لاش پر رکھ کر پوچھا بتاؤ یہ گدھا ہے کہ گائے۔ نابینا نے گائے کی لاش کو تفصیل سے ٹٹول کر کہا سائیں یہ تو گائے ہے مجذوب وتایو نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا میں نے ہمسائے کے گدھے کے مرنے کی دعا مانگی اور تو نے میرے گائے کو مار دی ، اندھے کو بھی گائے اور گدھے کا پتہ ہے۔  “

اس قصے سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں، پہلی  یہ کہ ہمیں اپنے ذہن  میں دوسروں کے لئے خیرخواہی  کا جذبہ  رکھتے ہئوے  اپنے لئے دعا مانگنی  چاہیئے۔ دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ ماں اور بچے کے درمیان پیار کا جو رشتہ ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ پیار اللہ اپنے بندوں سے کرتا ہے اور ہزار دوستوں سے بڑھ کر دوست اور رازدان  ہے۔ انسان جب ہر طرف سے ناکام یا مجبور ہوجائے تو وہ اپنے رب کے دربار سے اُمید لگائے بیٹھتا ہے اور گلے شکوے بھی اسی سے کرتا ہے اور اپنے سارے راز بھی اسی کے سپرد کرکے سکون محسوس کرتا ہے۔

دُعائیں وہ پھول ہیں جو زندگی کی پریشانی میں  انسان کو ڈھارس بندھواتی ہیں  اور کامیابی کی خوشبو بکھیرتی ہیں۔ دعا کیجئے، دُعا لیجئے، دُعا دیجیئے۔ جو کچھ آپ کو چاہئیے اس کے لیئے دُعا کیجئے اس وقت دُعا مانگیئے اُس وقت سوال کیجئے جب آپ کا ذہن  بالکل صاف ہو۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!