مکتوب چترال
بشیر حسین آزاد
ہرسال رمضان کا مہینہ آتے ہی کاروباری طبقے پر عوام اور حکومت دونوں مل کر اپنا نزلہ گراتے ہیں مہنگائی کا سبب تاجر طبقے کو گردانا جاتا ہے دکانوں پرچھاپے مارے جاتے ہیں تاجروں کو بلاوجہ تنگ کیا جاتا ہے اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ بازار پرسب کی نظریں لگی ہوئی ہیں چترال میں تجار یونین اتنی مضبوط اور طاقتور ہوا کرتی تھی کہ پرائس ریویو کمیٹیوں میں بھرپور کردار اداکرتی تھی ایک دفعہ نرخنامے آنے کے بعد نرخناموں کی پابندی میں بھی انتظامیہ کی مددکرتی تھی تجار یونین کا صدر ڈیوٹی مجسٹریٹ کے ہمراہ بازار کا دورہ کرتا تھا اور تاجروں کی نمائندگی کرتے ہوئے ناجائز چالان اور غیرضروری جرمانوں کو روک کرکاروباری طبقے کے لئے سازگار اور خوشگوار فضا لے آتا تھا ذخیرہ اندوزوں،ملاوٹ کرنے والوں اور مہنگائی لانے والوں کے خلاف خود ایکشن لیتا تھا چترال بازار پر ایسا وقت بھی آیا ہے جب لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے تجار یونین کا پلیٹ فارم استعمال کرتے تھے بجلی کا مسئلہ ہو،پانی کا مسئلہ ہو،سٹریٹ لائٹوں کا مسئلہ ہو یا صحت وصفائی کا مسئلہ ہوان مسائل کے لئے تجار یونین آواز اُٹھاتی تھی ٹاون کے عوام بازار کا ساتھ دیتے تھے کیونکہ بازار کی آواز عوام کی آواز ہوا کرتی تھی 2017تک چترال بازار کی تجار یونین کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ضلعی انتظامیہ کی نظر میں بھی یونین کو رسوخ حاصل تھا عوامی نمائندے بھی بازار کے صدر کو عزت واحترام دیتے تھے 2018میں بازار کے انتخابات 3سال کی مدت کے لئے منعقد ہوئے۔جس کی مارچ 2021کو مدت پوری ہوئی۔اب جبکہ مدت صدارت ختم ہوگئی ہے اب نئے انتخابات ہونے چاہیئے۔سننے میں آرہا ہے کہ تجار یونین کی صدارت پرقابض صدر عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں اس لئے بازار کی صورت حال بہت خراب ہے۔بازار میں سولر سٹریٹ لائٹ کی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے 90لاکھ روپے کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا،سولر پینل ناکارہ ہوگئے،بازار کی صفائی کا نظام بے حد ناقص ہے اس پر توجہ دینے کے لئے تجار یونین فعال کردار ادا کرتی تھی ایک فعال یونین کی غیر موجودگی میں سرکاری حکام کو گلہ کرنا بے سود ہے۔بازار کی صفائی کی صورت حال ناقص، دوکانداروں کو بلاوجہ جرمانے اور تنگ کرنا معمول بن گیا، جو بھی نیا اے سی آیا نیا برانڈ کا شاپر بازار میں متعارف کرایا تجار صدر نے شائپنگ بیگ کااپنا برانڈ متعارف کرایا۔بات 9سو روپے کلو تک پہنچ گئی کوئی پوچھنے والا نہیں۔تجار یونین نے جس منشور کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا اس میں ”تاجر برادری کی مفادات کا تحفظ کرنا،گاڑیوں کیلئے پارکنگ کا بندوبست،بازار کے مختلف جگہوں پر سیکورٹی کیمرے لگانا،بازار کیلئے سیکیورٹی گارڈ کا بندوبست،ہر دس دوکانوں پر مشتمل ایک ڈس بین لگانا،سیوریج نالے کے اوپر لوہے کے جنگلے لگانا،بازار کی صفائی کو روزانہ یقینی بنانا،بازار میں مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر،پینے کے پانی کے لئے جگ جگہ فلٹرز لگانا،بازار کے حدود میں بس اسٹاپ پر انتظار گاہ تعمیر کرانا،بازار میں جگہ جگہ واش روم بنانا،بائی پاس روڈ بازار کے لئے علیحدہ ٹرانسفارمر کا بندوبست،رات کے وقت بازار کیلئے چوکیدار کا بندوبست،اسٹریٹ لائٹ کا انتظام،سیاست سے بالاتر ہوکر تجاربرادری کی خدمت کرنا اور انتظامیہ کے ساتھ ملکر کام کرنا شامل تھا“ میں سے صرف آخری نمبر والے پر عملدرآمد کے علاوہ باقی کسی پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
اس سال رمضان کا مہینہ ایسے حالات میں آیاہے جب کوروناکی تیسری لہر نے لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے مہنگائی کے ذمہ داروں میں پرچون فروش کا قصور سب سے کم ہوتا ہے کارخانہ دار،کمیشن ایجنٹ اور آڑھت دھڑت سے ہوکر مال پرچون فروش کے پاس آتا ہے بازار کی یونین مضبوط ہوتو مہنگائی کی وجوہات کا پتہ لگاکر پرائیس ریویو کمیٹی میں تاجروں کی نمائندگی کرتی ہے اور نرخناموں پر عملدرآمد کو چیک کرنے میں انتظامیہ کی مدد کرتی ہے ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔چترال بازار کی تجار یونین نے ہردور میں عوام کے مفادات کا بھی تحفظ کیا ہے،انتظامیہ کے قانون کی پابندی میں کردار ادا کیا ہے۔کاروباری طبقے کا یہ خیال ہے کہ موجودہ دور میں تجار یونین کو فعال،نڈر اور دلیر قیادت کی ضرورت ہے تجاریونین کے انتخابات جتنے جلد ی ہونگے اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ قیادت کی کمزوری کی وجہ سے مہنگائی کا سارا بیانیہ بازار کے تجار برادری کے خلاف استعمال ہورہا ہے اور کاروباری طبقہ اس یک طرفہ الزام تراشی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔رہی بات تجار یونین کے صدر کی اگر اُسے صدارت کرنے کا مزید شوق ہے تو وہ جمہوری طریقے سے انتخابات کے ذریعے آکرتجار یونین سے کیے ہوئے وعدوں کو ضرور پُرا کریں۔بصورت دیگر تجاربرادری اُنہیں مزید برادشت نہیں کرینگے۔