مجسٹریٹ کی واپسی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
وفاقی حکومت نے پورے ملک میں مجسٹریسی نظام کی بحا لی کا فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کے بے شمار محر کات ہیں دو نما یاں محر کات یہ ہیں کہ مصنو عی مہنگا ئی پر قابو پا نے کے لئے قا نون کے ساتھ قا نون پر عمل در آمد کرنے والی ایجنسی کی ضرورت پڑ گئی ہے دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کے خلا ف جنسی ہرا سا نی کے وا قعات میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے اس کی وجو ہات جا ننے کے لئے غور کیا جا ئے تو معلوم ہو تاہے کہ مجسٹریٹ نا م کا افیسر ہو تا تھا وہ مو قع پر سزائیں دیتا تھا اُس افیسر کو گھر بھیجنے کے بعد انتظا می معا ملات میں بڑا خلا پیدا ہوا جرائم پیشہ افراد نے اس خلا کا نا جا ئز فائدہ اٹھا نا شروع کیا اگر دونوں باتوں کو یکجا کر کے دیگر عوامل و نتا ءج کے ساتھ ان کا جا ئزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ حکومت کی عمل داری مجسٹریٹ کے دم سے قائم تھا مجسٹریٹ کا عہدہ ختم ہو نے کے بعدحکومت کی عمل داری ختم ہو گئی گویا دیہات سے بازار تک ، دفاتر سے مساجد تک، سکول سے ہسپتال تک حکومت نا م کی چیز نظر نہیں آتی اس لئے بڑی سوچ بچار کے بعد حکومت نے مجسٹریسی نظام کی بحا لی کا فیصلہ کیا ہے وزارت قانون کے ذراءع کا حوالہ دے کر جو خبر اخبارات کی شہ سر خیوں میں شاءع ہوئی ہے اُس خبر کا خلا صہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ ایگز یکٹیو مجسٹریٹوں کے عہدے بحا ل کئے جائینگے 2001سے پہلے جو اختیارات ان کو حاصل تھے وہ اختیارات دوبارہ حا صل ہو نگے صو بائی حکومتیں اپنی صو بائی حدود میں قا نون سازی کے ذریعے تما م اضلا ع کے لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کے اختیارات کو بحا ل کرینگی ملک بھر میں یکساں قانون ہو گا علا مہ اقبال نے اس واقعے سے ملتی جلتی صورت حا ل میں کہا تھا
وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علا ج اس کا وہی آبِ نشاط انگیزہے ساقی
1970کا پشاور جن شہریوں کو یا د ہے وہ اس بات کے گوا ہ ہیں نیز اخبارات کی فائلیں اس کی شہا دت دیتی ہیں کہ پشاور میں سر فراز خا ن مجسٹریٹ درجہ اول کی شہرت تھی ملا وٹ ، ذخیرہ اندو زی اور گران فروشی پر وہ کسی کو 10روپے جر ما نہ کر تا تو وہ چُپ چاپ جر ما نہ ادا کرتا تھا اگر سفارش لا تا تو 10کی جگہ 50روپے جر ما نہ ہو تا مزید تگڑی سفارش لا تا تو 50کی جگہ 100روپے جر ما نہ ہوتا اس طرح سر فراز خان مجسٹریٹ نے قانون کی دھا ک بٹھا دی تھی حکومتی عملداری کا رعب قائم کیا ہوا تھا اس طرح ہر ضلع میں ایسے مجسٹریٹ ہوتے تھے جن کے سامنے کوئی با اثر شخص، کوئی سیا ستدان، کوئی سنیٹر، ایم این اے، ایم پی اے یا وزیر دم نہیں مار سکتا تھا 2000ء میں جنرل تنویر حسین نقوی کے منصو بے کے تحت ملک کا انتظا می ڈھا نچہ تو ڑ دیا گیا اضلا ع کی سطح پر ڈسٹرکٹ گور نمنٹ ٹرانزیشن رپورٹیں بنا ئی گئیں ان رپورٹوں میں جرائم کی تعزیری سزا وں کے متعلق 63قوا نین منسوخ کئے گئے ان کی جگہ نہ کوئی نیا قانون آیا نہ ان جرائم میں سزا وں کا اختیار مجسٹریٹ سے لیکر کسی اور کو دیا گیا ان میں اسلحہ، منشیات اور ذخیرہ اندوزی کی سزا وں کے قوانین بھی تھے مجسٹریسی نظام کی تاریخ کواگر دیکھا جا ئے تو 800سال پہلے کے را جوں، مہا را جوں کے ہاں داروغہ اور کو توال کے نا م سے مجسٹریٹ ہو تے تھے جن کے پا س انتظا می اختیارات ہو تے تھے بر صغیر میں انگریزوں کی حکومت آئی تو ان کی زبان اور لغت بھی آگئی مجسٹریٹ کا نا م بھی آگیا اس کے اختیارات بھی آگئے جا گیر داری نظا م کی وجہ سے عوام کے اندر سما جی شعور نہیں تھا سما جی ذمہ داریوں کا احساس نہیں تھا اس لئے جرائم پر کڑی سزا وں کی ضرورت تھی مجسٹریسی نظا م نے یہ ضرورت پوری کرد ی اگر غور کیا جا ئے تو ڈیڑھ سو سال گذر نے کے بعد 2021 میں بھی عوام کے شعور کی سطح 1857ء سے مختلف نہیں آج بھی عوام کے لئے سخت سزاوں کی ضرورت ہے اور سزائیں دینے والے افیسروں کی ضرورت ہے اور یہ گورننس کا وہ اصول ہے جس کی طرف پچھلے 20سا لوں سے تو جہ نہیں دی گئی اگر 2000 میں ملک کا انتظا می ڈھا نچہ نہ توڑا جا تا اگر مجسٹریسی نظام اپنی جگہ قائم رہتا تو ملک میں دہشت گر دی کی لہر نہ آتی، اسلا م اباد کے قلب میں واقع بڑی مسجد میں بڑے پیما نے پر اسلحہ نہ آتا ، سوات کے پیو چار میں اسلحہ کا ڈپو قائم نہ ہو تا ، ملک میں منشیات فروش اور جنسی ہرا سانی کے پے درپے وا قعات نہ ہوتے یہ خو ش آئند بات ہے کہ حکومت نے مجسٹریسی نظا م کی بحا لی کا فیصلہ کیا ہے۔