خودکشی کے معاشی عناصر

میرا جسم میری مرضی

تحریر: زار خان چترالی 
ایک کمپنی ھو۔ اور اس کمپنی مین بہت سارے شیئر ھولڈر ھو۔ ان شیئر ھولڈروں مین سب سے زیادہ جسکے شیئر ھوتے ھین۔ وہ مالک سمجھا جا تاھے۔ یعنی ساری کمپنی اسی کے ارد گرد گھومتی ھے۔ اسی طرح انسان کا جو جسم ھے وہ بہت بڑی کمپنی جی مانند ھے اس مین بہت سارے شیئر ھولڈر ھوئے اس مین تو سب سے پہلے ھمارے ماں باپ شیئر ھولڈر ھین۔ اس کے بعد ھمارے بہین بھائی شیئر ھولڈر ھین۔ اس کے بعد اگے جائین گے ھمارے اساتذہ شیئر ھولڈر بنتے ھین۔ اور اھیستہ  اہیستہ ھم جب بڑے ھو تے ھین تو ھمارے شیئر تقسم ھو تے ھین۔ لیکن کبھی ھم نے سوچا کہ ھمارے جسم پر یا ھمارے زندگی مین سب سے زیادہ زیئر کس کے ھین اور ھمارے جام کا مالک ھے؟ باظاھر ھم یہ دعوی کرتے ھین ھمارا جسم ھماری مرضی۔ لیکن پہلے یہ تو بتاؤ یہ جسم تمہاری ھے کیا تم اس کے مالک ھو کیا تم اپنی مرضی اس پر چلا سکتے ھو؟ پہلے یہ معلومُکرنا پڑے گا کہ دنیا کے اندر یہ ھمارا جام جو ھے اس پر غور کرین تو حقیقت مین اس جسم پر ھمارا کم سے کم حق ھے۔ اگر سیکھا جا ئیے کہ ھمارا شیئر اس جسم پر کم سے کم ھے اگر یہ کہون کہ 75 فی صد زیئر کای اور کے ھین 25 فی صد میرے پاس ھین 25 فی صد بھی نہین ھین۔ تو مجھے اپنے زندگی کیسے گزارنی چائیے اپنی مرضی کے مطابق یا 75 فی صد جس کے شیئر ھین اس کے مطابق؟ اجکل چلتا ھے میری جسم میری مرضی۔ زرا تحقیق تو کرلین ھمارے جسم مین ھمارے کتنے شیئر ھین؟ شروع کے پانچ ، دس سال ھم اپنے ماں باپ کے سہارے ھی جیتے ھین اس کے مرضی کے مطابق ھم زندگی گزارتے ھین ھماری حفاظت کیلے جو بھی ان سے ھو سکتا ھے کر تے ھین۔ ھمارے تعلیم کیلے نہ چاھتے ھوئے بھی وہ ھمین سکول بیجھتے ھین 12 سے 15 سال تک تو ھمارا ھوش بھی نیہن ھو تا ھے کہ کون ھے ھمین یہ بھی معلوم نہین ھوتا ھے کہ ھم سنیا مین کیون ایئے ھین ؟ بس مان باپ کے مرضی کے مطابق چلتے ھین اور اس کے بعد ھم سکول جاتے ھین کالجز جاتے ھین ھر جگے ھمین ان کے مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ے مثلأ مین یونیورسیٹی جا رھا ھون یا مین سکول جا رھا ھون  سکول کا ایک یونیفرم بنایا جا تا ھے اگر مجھے سکول کانا ھے تو مجھے وہ ڈریس مجھے پہنا پڑے گا مین وھان پر مرضی نہین چلا سکتا ھون مجھے ان کے کہنے کے مطابق چلنا پڑے گا اسطرح مین کالج می جاتاھون تو کالج مین بھی کچھ اصول ھوتے ھین۔ اس اصولون کے مطابق چلنا ھوتا ھے اور جب مین پڑھ لکھ کر ایک عام انسان بن جاتا ھون اور سو سائیٹی کا ایک حصہ بنتا ھون سو سائیٹی مین کام کرنے لگتا ھون تو اب سوسائیٹی کے مرضی کے مطابق مجھے چلنا پڑے گا ایسا نیہن ھو سکتا ایسا نہین ھو سکتا ھے کہ مین اپنے مرضی سے کام کرون میرا سوسائیٹی مجھے اجازت نہین دے گی اس لیے مجھے سوسائٹی پر سو سائیٹی کے قوانین کے مطابق زندگی گزارنی پڑے گی۔ 
اب اجائیے میرے جسم مین جو چیز ین ھین وہ قدرت کی چیزین ھین اور ققرت نے مجھے دی ھے اور اس مین میرا کوئی اختیار نہین۔ مثلآ یہ سانس مین لے رھا ھون مین رات کو سو جاتا ھون پھر بھی میرادل دھڑکتا ھے اور مین سانس لیتا ھون اس مین میری مرضی کا تو نہین پو چھی گئی تو ھماری زندگی کا درمدار وہ سانس کے اپر ھے اور وہ سانس قدرت دیتی ھے تو ھماری زندگی مین 70 فی صد سے زیادہ مرضی کس کی چلنی چائیے قدرت کی چلنی چائیے۔ اور اس کے بعد اپ دیکھ لیجے کہ ھمارا دل ھے ھم کو پتہ بھی نہین کہ ھمارا دل ایک مننٹ مین کرنی بار سھڑکتی ھے ھمین یہ بھی نہین معلوم نہین ھے کہ ھمارا دل جو ھماری جسم مین خون کتنا گردش کرتا ھے کتنی مرتبہ پامپ ھوتا ھے یہ بھی ھمین پتہ نہین جس پر ھمارا کوئی اختیار نہین ھے۔ 
اس کے بعد انسان کتنا عجیب ھے چربی سے دیکھتا ھے گوشت کے ٹکڑے سے باتین کر تا ھے ھڈی سے سنتا ھے اور سراخ سے سانس لیتا ھے کس کا ھے؟ یہ چربی سے دیکھتا ھے دیکھنے کی قوت مین ھماری کوئی مرضی ھے؟ بہت ایسے نابینا ھین کہ جس کے پاس بینائی نہین ھے کہتے ھین جیسی اللہ کی مرضی۔ ھماری مرضی کہاں بات آتی ھے؟
کوئی نہ چا ھئے گا کہ ان کی انکھونُکی بینائی چلی جائے۔ یہ صرف کہ صرف اللہ پاک کے اپر ھے کہ اللہ پاک ھم کو انکھون کی بینائی دیتا ھے یا چھین لیتا ھے۔ اسطرح ھماری زبان جو گوشت کا ایک ٹکڑا ھے جس سے ھم بولتے ھین یہ صلا حیت کون دیتا ھے؟ کیا ھم مصنوعی زبان لگا کر اواز نکال سکتے ھین اپنی دل کی بات کسی سے کر سکتے ھین ؟ یہ دو سراخ ھمین دیتے ھین جو سماعت کے لیے کافی ھے کیا اسمین ھماری چلتی ھے بہت سارے لوگ بہرے ھین تو وہ کا طرح اپنا زندگی گزارتے ھین معلوم تو کرو؟ یہ جو سنوئی جو دی گئی ھے دیکھنے کی صلاحیت دی گئی ھے جو سانس لینے دی گئی ھے اس مین ھماری کوئی مرضی ھے؟  جو ھمی سونکھنے جو صلاحیت دی گئی ھے اس  مین ھماری کوئی مرضی ھے؟ یا جیسا خدا نے جیسا بنایا ایسا ھم بنے؟ جب خدا نے ھمین بنایا ویسے بنے؟
تو پھر ھماری مرضی کیبات کہان ھے؟ شکر کرو خدا وند عالمین نے اپ کو چند چیزون مین خود مختار بنایا ھے فیصلہ کرنے والا بنایا ھے صحی فیصلہ کرو گے تو فائدہ ھوگا اور غلط فیصلہ کروگے تو اس سے نقصان بھی اٹھا نا پڑے گا۔ یہ اللہ تبارک و تعالی کا قانون ھے۔ 
مختصر یہ کہ انسان کی زندگی ایک دائری جیسی ھے جو کہ تین Pages پر مشتمل ھے پہلہ صفحہ پیدئشی کا ھے جو ھمین معلوم نہین اور اخری صفحہ بھی ھیمن معلوم نہین موت ھے درمیان مین ایک صفحہ رہ جا تا ھے اس مین اپ کو لکھنا ھے جو بھی لکھنا ھے۔ 
اسلیے ھمین چائیے کہ اللہ پاک نے ھمین جو زندگی دی ھے اس سے اللہ پاک کے قانون کے مطابق گزارنا چائیے۔
 
 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *