نوائے سُرود
شہزادی کوثر
عالمی وبا کی تباہ کاریوں کے بارے میں سنتے اور دیکھتے آرہے تھے، زندگی پہلے جیسی نہ رہی تھی لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہر کوئی تندہی سے جتا ہوا تھا۔ اچانک کورونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، اور دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند ہونے لگے۔ ہم حالات معمول پر آنے کے انتظار میں تھے۔ یہ کیا ہو گیا۔۔؟ گھر کی چار دیواری سے وحشت ہونے لگی ،سارا دن کوئی گھر بیٹھ کر کیا کرے گا؟
اسی فکر میں گھلتے رہے کہ کب زندگی پہلے جیسی ہو گی؟ کسے معلوم تھا کہ مجھے ایسی شدت سے جھنجوڑا جائے گا کہ سارے کس بل نکل جائیں گے۔ اچانک میری طبیعت میں بگاڑ پیدا ہونے لگا سارا وجود ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا سینے پر بوجھ اتنا پڑا کہ سانس لینے میں دشواری ہونے لگی سوچا آرام کروں گا تو بہتری آئے گی لیکن وہ رات تو گویا قیامت کی رات تھی ،ایسا لگ رہا تھا کہ پورے جسم پر ہتھوڑے برس رہے ہوں ہر لمحہ موت قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ خدا خدا کر کے رات تو گزر گئی لیکن دن اس سے بھی سخت ثابت ہوا۔ کھانسی اتنی شدید آ رہی تھی کہ سانس اوپر نیچے ہونے لگی۔ ٹسٹ کروایا تو کورونا پازیٹیو تھا۔
ہسپتال میں داخل ہوتے ہوئے لگ رہا تھا کہ دوبارہ اپنے بچوں اور خاندان والوں سے ملاقات نہیں ہو پائے گی۔ یہ خیال ستانے لگا کہ میرے بچے بہت چھوٹے ہیں وہ میری موت کے غم کو کیسے سہہ پائیں گے؟ بیٹا مجھ سے بہت قریب ہے جسمانی اور جذباتی دونوں طرح سے، یہ ہم دونوں کے لئے سخت لمحات تھے کہ کیسے ایک دوسرے کے بغیر رہ پائیں گے۔وہ مؑعصوم تو کچھ کہہ بھی نہیں پا رہا تھا صرف دروازے پر آکر کہتا تھا کہ بابا مٰں آپ سے ناراض ہوں۔۔ میری بے بسی کی انتہا تھی کہ نہ اسے اپنے سینے سے لگا سکتا تھا نہ سمجھا سکتا تھا۔ مجھے اپنی موت کی اتنی فکر نہیں تھی جتنا اپنے خاندان والوں کے غم کا احساس تھا۔ جب مجھے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو میرے جیسے کئی لوگ موت کے ہاتھوں سے اپنی زندگی کی ڈور کھینچتے ہوئے نظر آئے۔ ہسپتال کا ماحول ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہر لمحہ موت وحیات کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ مجھے بھی کئی بار ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں آہستہ آہستہ موت کے بے رحم پنچوں میں چلا جا رہا ہوں ،لیکن کوئی احساس یا جینے کی شدید آرزو مجھے وہاں سے کھینچ کر باہر لاتی۔ یہ آرزو اس بات کی ہرگز نہیں تھی کہ میں پیسے کماوں اور اپنے بچوں کے لیے دولت کے انبار لگادوں بلکہ یہ آرزو تھی کہ کاش میرے ہاتھ خالی نہ ہوتے۔۔۔۔میرے اعمال نامہ میں کچھ مزید نیکیاں ہوتیں تو رب کے حضور شرمندگی سے بچ جاتا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ میں نے اپنی آدھی عمر ضائع کر دی۔ اسی وقت اتنی شدید کھانسی آئی جیسے میرے پھیپھڑوں کے اندرونی حصے کو کوئی کھروچ رہا ہو، جب معلوم ہوا کہ یہ خونی کھانسی ہے تو حوصلہ جواب دینے لگا۔
ڈاکٹر نے کہا کہ نارمل ہے پریشانی والی کوئی بات نہیں ،لیکن میری تشویش کم نہ ہوئی۔ دن تو جیسے تیسے گزار دیا لیکن رات تو شیطان کی آنت سے بھی طویل لگی۔ بخار کم ہونے میں نہیں آرہا۔ دانت بجنے لگے اور کپکپی طاری ہوئی۔ مجھے جن لوگوں کی قربت درکار تھی وہ میرے پاس نہیں تھے۔ دماغ خیالات کی آماجگاہ بنا تھا مگر کوئی سننے والا، بات کرنے والا میسر نہیں تھا۔
شب طویل بھی کاٹی ہے خود کلامی سے
کوئی شریک میرے رتجگے میں تھا ہی نہیں
رہ رہ کر ماں اور بیوی بچوں کا خیال آنے لگا کہ ان کا کیا ہو گا پھر اللہ پر توکل کیا کہ زندگی اور موت اس کے قبضہ قدرت میں ہے اگر اسے یہی منظور ہے تو میرے خاندان کے لیے وہی کافی ہے۔ اس دوران اپنے اس نئے دوست کا بھی خیال آیا جسے میں ابھی تک نہیں ملا تھا۔۔ کیوں نہ اسے آگاہ کیا جائے اگر میں زندگی کی بازی ہار گیا تو اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہو گا۔ لیکن دماغ نے کہا کہ تیرے جینے مرنے سے اسے کیا غرض ۔حیات وموت کی اس رسہ کشی میں میرے دل کی دھڑکنیں گرنے لگیں ،آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ،سانسیں رکنے لگیں۔ اس بگڑتی سنبھلتی حالت میں میرے ایک عزیز دوست کے بارے میں معلام ہوا کہ وہ بھی ہسپتال میں داخل ہے ۔ اسے خود غرضی کہیے یا کچھ اور کہ خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت دل میں پیدا ہوئی شاید دوست کے نام سے ہی حوصلہ اور طاقت ملنے لگی۔ بڑی مشکل سے ان سے رابطہ کیا ایک دوسرے کی بات سنتے رہے گپ شپ لگاتے رہے، ہم دونوں کی حالت بنتی بگڑتی رہی۔ اچانک ان کے مرض میں اضافہ ہوا جس کی شدت وہ برداشت نہ کر پائے اور ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گر پڑی زندگی کی بے ثباتی کا یقین ہونے لگا میرا حوصلہ ٹوٹ گیا بیماری سے لڑتے لڑتے میں بری طرح تھک چکا تھا اس لئے اپنی موت کا بھی یقین ہونے لگا۔ساتھ ہی یہ غم جان کھائے جا رہا تھا کہ میں کتنا بد قسمت ہوں جسے اپنے جگری دوست کے جنازے میں شریک ہونا اور اسے لحد میں اتارنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہستی ایک بوجھ لگنے لگی اس میں کوئی رنگ اور رونق باقی نہیں رہی تھی ۔وہ دوست تو کھوچکا تھا جو میرے ٹوٹتے اور بکھرتے وجود کی کرچیاں سمیٹ لیتا۔ اب اپنی باری کا انتظار کرنے لگا لیکن اوپر والے کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔کسی کی دعایئں تھیں یا زندگی کی ایک اور مہلت، رب نے میری زندگی بخش دی۔۔۔ میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے اس بیماری نے تلخ حقائق بھی مجھ پر آشکار کیے ہیں کہ برے وقت میں کوئی بھی ساتھ نہیں رہتا ۔ سوشل میڈیا پر جو سینکڑوں چاہنے والے اور دوست ہیں وہ سب دھوکہ ہے۔ آپ کا کوئی نہیں ہوتا یہ سب وقت گزاری کے دوست ہیں ،اگر کوئی اپنا ہے تو وہ آپ کے بہن بھائی اور خاندان والے۔۔ باقی سب خود غرض لوگوں اور مطلب کے پجاریوں کا ہجوم اور بس۔