Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

چترال کے 93 فیصد رقبے کو سرکاری قرار دینے پرعوام میں تشویش

چترال (محکم الدین) پاکستان تحریک انصاف چترال کے صدر سجاد احمد دیگر عہدہ داران محبوب الرحمن، خیر الرحمن، ضیاء الرحمن، امیر علی، حیات الرحمن اور عمران کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لینڈ سٹلمنٹ چترال نے چترال کے 93 فیصد رقبے کو سرکاری ملکیت قرار دے کرعوام میں ایک تشویش پیدا کی ہے۔ جس میں ریور بیڈ، شاملات جنگل وغیرہ کی تشریح کئے بغیر ان کو بحق سرکار قرار دینے میں تحفظات پائے جاتے ہیں

عوامی مطالبہ تھا کہ جب تک عوامی تحفظات دور نہیں کئے جاتے ریکارڈ کی تکمیل اور ڈی سی چترال کو حوالگی نہ کی جائے۔

اس لئے چترال کے لوگوں کیلئے یہ خوشی کی بات ہے کہ معاون خصوصی وزیر زادہ کی کوششوں سے وزیر اعلی کی طرف سے کمیشن کے قیام، عوام کے تحفظات دور کرنے اور ریکارڈ کی حوالگی موخر کر دی گئی ہے اور ریکارڈ تب تک ڈی سی چترال کو حوالہ نہیں کیا جائے گا جب تک عوامی تحفظات دور نہ کئے جائیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھانے پر وزیر اعلی محمود خان، معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ ، چیف سیکرٹری اورکمشنر ملا کنڈ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں نہ صرف لینڈ سٹلمنٹ کا ایشو حل طلب ہے بلکہ اس کے ملازمین کو مستقل کرنے کا مسئلہ بھی حل کیا جانا چائیے جو کہ روزگار چھین جانے کے سلسلے میں انتہائی خوف اور مایوسی سے دوچار ہیں۔

سجاد احمد نے کہا کہ یہ بات باعث تعجب ہے کہ دیر اور سوات جیسے اضلاع میں لوگ پہاڑوں میں اپنی مرضی سے مکانات بنا رہے ہیں ۔ لیکن چترال میں تمام پہاڑوں، جنگلوں، ریور بیڈز کو سرکاری ملکیت قرار دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ چیزوں کی تشریح تاحال نہیں کی گئی ہے جو کہ واضح ہونے چاہئیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ دوسرے اضلاع میں سالوں سے سٹلمنٹ ریکارڈ مکمل نہیں ہوئے ہیں لیکن چترال میں عجلت میں اس کی حوالگی پر زور دیا جارہا ہے جو کہ کئی سوالات پیدا کرتا ہے۔ 

اس موقع پر امیر علی نے خطاب کرتے ہوئے سابق ایم ایم اے حکومت کے نمایند گان پر الزام لگایا کہ ایم ایم دور میں جب لینڈ سٹلمنٹ چترال میں سٹبلشٹ ہو رہا تھا تو باوجود مطالبات کے نمایندگان نے ملازمتوں کی خاطر قوم کے مفاد کو داو پر لگا دیا۔ اس کیلئے حکومت سے کوئی بات نہیں کی جس کی وجہ سے عوام اب بہت بڑے مسئلے سے دوچار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 93 فیصد رقبہ سرکاری ملکیت قرار دینے کے بعد عوام کے پاس کیا رہ گیا ہے جبکہ چترال میں شاملات، جنگلات کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔

سجاد نے کہا اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل لینڈ سٹلمنٹ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جن کے بارے عوام کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!