لینگلینڈ سکول پر واجبات کی ادائیگی میں ٹال مٹول کا الزام
اس موقر اخبار کے ذریعے میں [الحاج محمد خان] اپنی گزارش وفاقی اور صوبائی حکومت، پرائیوٹ سکولز ریگولیڑی اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ اور پاکستان میں محنت کش طبقے کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارون اور معاشرے میں موجود حضرات کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں تاکہ میری درخواست پر عمل ہو سکے۔
میں دی لینگ لینڈز سکول اینڈ کالج چترال کے ساتھ بحیثیت ایک اُستاد کام کا آغاز 15 جون 2015 کو شروغ کی۔ [سکول میں میرے کام اور محنت کے حوالے سے میرے اسٹوڈنٹس میرے سفیر ہیں جوکہ چترال کے ہر گھر میں موجود ہیں وہ بتا سکتے ہیں]۔ سکول سے میری وابستگی 21 اگست 2020 تک رہی جب میں نے سکول انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر لوئر چترال [ جوکہ سکول کے بورڈ آف گورنرز کا حصہ ہیں ] کو اپنی درخواست جسمیں اپنی ملازمت سے مستغفی ہونے کے بارے میں لکھنے کے علاوہ سکول کے پالیسی کے مطابق دو مہینے کی نوٹس جمع کی۔ یاد رہے کہ میں یہ درخواست بذات خود سکول ہذا کے چیف کلرک رحمت جلیل کو جنگ بازار افس کے سامنے سپرد کی۔ استعفی کا یہ درخواست دینے سے پہلے میں نے اُس سے ٹیلی فون میں بات کرکے اس کی دفتر میں موجودگی کو یقینی بنانے کے بعد یہ درخواست اُس کے پاس سکول کے جنگ بازار افس کے سامنے اُسکے ساتھ جمع کردی، اور اُس کی ایک کاپی ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کے دفترمیں جمع کرکے واپس ہوگئی۔
دو مہینے کا نوٹس پورا ہونے کے بعد میں بذات خود چیف کلرک جلیل صاحب کو ٹیلی فون میں اسکے حوالے سے دریافت کی تو اُس کا کہنا تھا کہ ‘آپ کی درخواست اُس وقت میں نے دفتر میں جمع کی ہے’ آپ کا کام ہو جائے گا۔
کم وبیش 46 دن گزرنے کے بعد جب میرے واجبات جو کنٹربیوشن اور پروڈنٹ فنڈ، واجب الادا تنخواہ وغیرہ کی صورت میں ہیں جب نہ ملے تو میں دوبارہ ایک درخواست ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کی خدمت میں پاکستان پوسٹ افس کے ذریعے بھیج دی۔ میں نے 7دسمبر 2020 کو یہ درخواست کی کاپی سکول انتظامیہ کو بھی بھیج دی تاکہ میری درخواست پر عمل درامد جلدی ہوسکے اور سکول پر میرے واجبات مجھے مل سکیں۔ یاد رہے کہ اس درخواست میں، میں نے، سکول سے اپنی وابستگی کا جو دورانیہ رہا اُس کے حوالے سے متعلقہ ادارے اور ڈی۔سی چترال کو اگاہ کی تاکہ میرے واجبات کو حتمی شکل دیتے وقت یہ اُن کے نوٹس میں رہے۔
تقریباً تین مہینے 9 دن گزرنے کے بعد جب میری درخواست پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو میں نے دوبارہ 16 مارچ 2021 کو ایک درخواست ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کی خدمت میں لکھا اور اُس درخواست کی کاپی سکول ہذا کو بھی بھیج دی تاکہ اُس پر عمل ہو لیکن اب تک اُس پر بھی کوئی عمل نہ سکا۔ اُس آخری درخواست میں، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ میرے درخواست پر ایک ہفتے کے بعد کوئی عمل نہ ہوا تو میں دادرسی اور انصاف کیلئے اسے آگے لے جاونگا۔
میں اس موقر اخبار کے ذریعے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلی محمود خان، وزیر تعلیم صوبہ خیبر پختونخوا، پرائیوٹ سکولز ریگولیڑی اتھارٹی کے سربراہ، انسانی حقوق اور محنت کش طبقے کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے اور حضرات، اساتذہ تنظیموں اور دوسرے متعلقہ حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ سکول ہذا کے پاس میرے جو بھی واجب الادا ہیں وہ مجھے ادا کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرکے مشکور کریں اور میرا یہ بھی مطالبہ ہے جو بھی میرے واجب الادا دی لینگ لینڈز سکول و کالج پر ہیں اُن کی ادائیگی کے وقت ملک میں افراط زر اور روپے کی قدر کی گراوٹ کو جو اکتوبر ۲۰۲۰ ء میں تھا کے شرح سے مجھے ادا کئے جائیں۔
Experienced teachers say Langlands School that was actually a charity trust like project to upgrade the education level of this remote area Chitral is downgraded now.
Elements related to education and social sector of Chitral had raised a voice for its mis-handling some two years back but influential people on the other turned all that down consulting the high offices of the country. Bad luck for the region and for such a magnificent project.