Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

منشیات اور چترال

بہرام علی شاہ

پرانا ضلع چترال اور موجودہ چترال کے دونوں اضلاع اپنے امن پسندی, مہمان نوازی, رواداری, بھائی چارگی اور جرائم کے کم شرح کی وجہ سے صوبہ بھر میں مشہور ہیں. لیکن حالیہ چند سالوں کے دوران چترال میں ایسے جرائم جنم لے رہے ہیں جو چترالی نوجوانوں کے مستقبل کے لیے خاموش قاتل بن کر ابھر رہے ہیں. ان جرائم میں سرِ فہرست منشیات کا کاروبار اور خاص طور پر نوجوانوں میں منشیات فروشی اور منشیات کشی کی بڑھتی ہوئی رجحان ہے. جس سے نہ صرف چترال میں سماجی برائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بلکہ مستقبل میں ایک منفی طرز زندگی, خرد باختگی اور نتیجے کے طور پر زہنی و اخلاقی بدامنی کے امکانات اپنی باہیں پھیلاۓ ہوۓ واضح دکھائی دے رہے ہیں.
چترال میں استعمال میں لاۓ جانے والی روایتی منشیات نسوار, سیگریٹ, شراب, افیون اور چرس کے علاوہ حالیہ سالوں کے دوراں ہیروئن کا استعمال ایک منظم کاروبار کی صورت اختیار کرنے کے بعد ایک مخصوص مافیا کے لیے راتوں رات کروڑ پتی بننے کا زریعہ بن چکا ہے.
اپر اور لوئر چترال کے کئی دیہات میں شراب کے کارخانے موجود ہیں جہاں سے دوسرے دیہات میں اس کی ترسیل پانی کی طرح ہو رہی ہے. عام مشاہدے کے مطابق چترال میں شراب کی فروخت اور استعمال میں کئی سفید پوش اور سیاسی افراد ملوث ہیں.
پچھلے سال لوئر چترال کے صرف ایک گاؤں سے کروڑوں مالیت کے ہیروئن اور افیوں کی برآمدگی ضلعی انتظامیہ, مقتدر حلقوں اور سول سوسائیٹی کے افراد کی چشم کشائی کے لیے کافی ہیں.
چترال میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں کی یہ کاروبار آزادانہ طور پر کیا جا رہا ہے. نوجوانوں کی اکثریت اس کالے دھندے میں ملوث ہیں. سماجی برائیوں کی کئی جھلکیوں میں سے عام نظر آنے والی ایک جھلک یہ ہے کہ نوجوان نسل پڑھائی یا بامشقت کام کرکے کم پیسے کمانے کے بجائے کم وقت میں زیادہ منشیات فروخت کرکے زیادہ پیسے کمانے کو ترجیح دیتے ہیں.
معلومات کے مطابق منشیات کے اس گھناؤنے کاروبار چند اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی سرپرسرتی میں ضلعی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج بنتا رہتا ہے. مقامی سول سوسائیٹی کے افراد کے مطابق پولیس محکمے کے افراد بھی اس کاروبار میں اپنے ہاتھ رنگے ہوۓ ہیں جس کی وجہ سے یہ کاروبار دن بہ دن ترقی کر رہا ہے. سول سوسائیٹی کے افراد یہ سوال کرنے میں بلکل حق بجانب ہیں کہ جس ضلع میں ڈکیتی, چوری اور قتل کے جرائم کی شرح صفر ہو, وہاں کی پولیس صرف منشیات کی استعمال کی شرح کو کم کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس اکثر خاندانی اور بڑے منشیات فروشوں کو نہیں پکڑتا ہے بلکہ ان کی نشاندہی پر چھوٹے منشیات فروشوں کو پکڑ کر اپنا ریکارڈ بھی بہتر کرتا رہتا ہے. چترال میں اس سماجی برائی کو روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ہے. جس کی وجہ سے یہ زہر پورے چترال ہیں نہایت ہی تیزی سے پھیل رہا ہے. چترال میں نوجوانوں اور سماج کو ایسے مہلک سماجی, مذہبی, اور اخلاقی بیماروں سے بچانے اور متحرک کرنے کے نام پر روزانہ و ماہانہ و سالانہ کی بنیاد پر رزقِ حلال بٹورنے والے دیگر سماجی و مذہبی ادارے بھی خواب خرگوش سوۓ ہوۓ نظر آتے ہیں. ہر دفعہ چترال میں پولیس افسران اور ڈی. پی. او صاحبان اس عزم کے ساتھ تشریف لاتے ہیں کہ وہ دیگر جرائم سے پاک سر زمین چترال کو منشیات سے بھی پاک کریں گے. لیکن بدقسمتی سے تمام افسران یہ آرزو دل میں بسا کر ناکام واپس لوٹتے ہیں. اس دفعہ چترال کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون ڈی. پی. او کی تقرری ہوئی ہے. سول سوسائیٹی کے افراد سابقہ مرد پولیس افسران سے مایوس ہو کر حالیہ ڈی.پی.او صاحبہ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ دیگر جرائم سے پاک ضلع چترال کو منشیات سے پاک کرنے کی اس عزم کو جلا بخشنے اور خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں ان کی پشت پناہی کرکے ان کی ناامیدی پر امید کی کرن کو طلوع ہونے دین. ساتھ ساتھ چترال کے سیاسی و سماجی نمائندوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی روایتی طرز عمل پر نظر ثانی کرکے ضلعی انتظامیہ کی پشت پناہی کرین تاکہ چترالی معاشرے میں منفی اور سماجی برائی پر مبنی طرز زندگی کی حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے. وگرنہ سماجی برائیوں کی جڑ یعنی منشیات کی ترسیل و استعال سے نشونما پانے والے درخت کے پھل چھکنے سے اپنے مسقبل کی نسل کو بچانا ممکن نہیں رہے گا

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!