معذور پنشنروں کا قصور
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
معذور پنشنروں کا قصور یہ ہے کہ عمر رسیدہ، بوڑھے، معذور اور بیما ر ہونے کے باوجود وہ زند ہ کیوں ہیں پنشن کیوں لیتے ہیں وزارت خزانہ کا نیا حکم آیا ہے کہ کوئی پنشنر اپنے گھر کے قریب ڈاک خا نے سے پنشن نہیں لے سکتا پنشن لینے کے لئے بینک میں اکا ونٹ کھو لنا لا زمی ہو گا او پنشن صرف بینک اکا ونٹ کے ذریعے ملے گی ڈاک خا نوں نے تمام پنشنروں کو ان کے پنشن بک واپس کر دیئے اسلا م اباد، لا ہور یا کرا چی کے کسی دفتر میں بیٹھا ہوا شخص ایک کا غذ پر دستخط کر کے بری الذمہ ہو جا تا ہے وہ کاغذ جب گاوں کی سطح پر عمل در آمد کے لئے بھیجا جا تا ہے تو پتہ لگتا ہے کہ کا غذ میں کیا ہے
ایک دفتر کے اندر عیش و عشرت کے ماحول میں بیٹھے ہوئے شخص کو اس بات کا علم نہیں کہ پنشن لینے والوں میں 102سال کی عمر کے وہ عازی بھی شامل ہیں جنہوں نے 1948ء میں کشمیر کے محا ذ پر پہلی پا ک بھارت جنگ لڑی اُس بوڑھے سپا ہی کو بینک بلا کر با ئیو میٹرک کے تکلیف دہ عمل سے گذارنا آسان نہیں 60سال کی عمر کے بعد انگلیوں کے نشا نات مٹ جا تے ہیں 50فیصد لو گ با ئیو میٹرک نہیں کرسکتے 102سال کے بوڑھے کو اُس کے پو تے بینک میں لا تے ہیں سارا دن مشین کے سامنے بٹھا تے ہیں تقا ضائے بشری کے تحت وہ بار بار واش روم جا تا ہے دن کے اختتام پر بینک حکام کہتے ہیں کہ شنا ختی کارڈ کو تبدیل کراءو اگلے چا ر دنوں میں وہ صبح سے شام تک شنا ختی کارڈ کی تبدیلی کے لئے خوار ہو تا ہے ایک ما ہ بعد نیا شنا ختی لیکر بینک جا تا ہے تو پھر بائیو میٹرک نہیں ہوتا اس طرح 1948ء کی پا ک بھارت جنگ کا غازی مسلسل اذیت کے عمل سے گذر تا ہے آخر کار اس کی پنشن بند ہو جاتی ہے قصور یہ ہے کہ بوڑھاہے ، بیما ری اور معذور ی کے باو جود وہ کیوں زند ہ ہے
یہ وطن عزیز کے 8لا کھ پنشنروں کا مسئلہ ہے یہ وہ لو گ ہیں جو دیہا ت میں رہتے ہیں اور اب تک قریبی ڈاک خا نے سے پنشن لیتے تھے ہمارے دیہا تی علا قوں میں ڈاک خا نہ حکومت پا کستان کی ایسی سہو لت ہے جو سب کو میسر ہے آسا نی سے میسر ہے اور خد مت گذاری کے لئے ہر دم تیار ہے ڈاک خا نے کا سیونگ بینک، ڈاک خا نے کا پو سٹل انشو رنس اور ڈاک خا نے سے پنشن لینے کی سہو لت غریبوں کے لئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں اسلام اباد، لاہور یا کراچی کے دفتر میں بیٹھا ہوا مغرور ، متکبر اور خود سر حا کم یہ نہیں جا نتا کہ ڈاک خا نہ پنشنر کے گھر سے چار کلو میٹر کے فا صلے پر ہے جبکہ بینک تک جا نے کے لئے اس کو 200کلو میٹر سفر کرنا پڑتا ہے پہاڑی علا قوں میں 200کلو میٹر کا سفر 12گھنٹے لیتا ہے بلو چستان ، وزیر ستان، ہزارہ اور ملا کنڈ کے پہا ڑی علا قوں میں بعض گاءوں ایسے بھی ہیں جہاں سے قریبی بینک کا کم سے کم فاصلہ 320کلو میٹر ہے ایسے پہاڑی دیہات میں رہنے والے پنشنروں کے لئے گاوں کے ڈاک خانے سے پنشن لینا آسان تھا اُن کے لئے بینک جا کر اکاونٹ کھو لنا اور بایو میٹرک کے اذیت ناک عمل سے گذر کر پنشن لینا ایک عذاب سے کم نہیں
، آپ کسی بھی بینک جا ئیں وہاں ہزاروں پنشنر آپ کو ملینگے ان میں محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور پا ک فو ج کے پنشنر بھی ہو نگے ضلع چترا ل اَپر ملا کنڈ ڈویژن کا ضلع ہے اس ضلع کے ایک بینک میں ایک ہی روز جن پنشنروں کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ان میں سے دو پنشنر وں کی مثال کا فی ہو گی صو بیدار یٹا ئرڈ رحمت ولی 1965کی جنگ کے ہیرو اور غا زی ہیں دونوں آنکھوں سے معذور ہو چکے ہیں ایک ٹانگ سے بھی معذور ہیں بیٹا ان کو لیکر 62کلو میٹر دو ر سے آیا ہے گذشتہ 5دنوں سے ہو ٹل میں رہتا ہے روز بینک آکر با یو میٹرک کی اذیت اور تکلیف سے گذر تا ہے لا نس نا ئیک اشرف خان 1948ء کی پا ک بھارت جنگ کا غا زی ہے ان کی عمر 97سال ہے بینا ئی جواب دے چکی ہے 110کلو میٹر دور سے آیا ہے اور گذشتہ ایک مہینے میں یہ اُس کا تیسرا سفر ہے
ایک بار بینک والوں نے دو دن رگڑا دینے کے بعد واپس بھیج دیا ، پھر آیا ، 3دن تکلیف اور اذیت سے گذار نے کے بعد واپس بھیجدیا اب وہ تیسری بار آیا ہے بینک والوں کا کہنا ہے تمہارا با یو میٹرک مشکل ہے تمہاری پنشن بند ہو جا ئیگی یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گر تی ہے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے معذور پنشنروں کا قصور یہ ہے کہ وہ اتنے بوڑھے اور معذور ہونے کے باوجود زندہ کیوں ہیں اس طرح کی اذیتوں سے گذر نے والے لو گ حکومت کو الزام دیتے ہیں وزیر اعظم اور کا بینہ کو الزام دیتے ہیں اور کسی ایک افیسر کے غلط حکم کی وجہ سے ایسا ہو تا ہے چیف آف آر می سٹاف سے در خواست ہے کہ ڈاک خا نوں کے ذریعے پنشن کی تقسیم کا طریقہ بحا ل کر کے قوم کے بزرگ غا زیوں کا مسئلہ حل کریں۔