اورغوچ کی پسماندگی

0
چترال (محکم الدین) قیام پاکستان کے بعد اگر ملک میں پسماندہ ترین علاقہ موجود  ہے۔ تو وہ چترال شہر کےبغل میں واقع گاوں اورغوچ ہے۔ اس علاقے کی پسماندگی دور کرنے کیلئے کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی۔ یو ں اورغوچ گاوں پسماندگی، محرومی اور مایوسی کی عملی تصویر ہے۔ 480گھرانوں، چودہ برادریوں اور 4500 کی آبادی پر مشتمل یہ گاوں وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں ایک وسیع رقبہ زرعی اراضی کا ہے۔
لیکن پانی کی نایابی اس کے سرفہرست مسائل میں شامل ہے۔ زمینات کو سیراب کرنے کیلئے پانی کی دستیابی تو دور کی بات ،لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ نہ حکومت کے دل میں اس علاقے کیلئے ہمدردی ہے ۔ اور نہ قرب وجوار کے علاقے ان پر ترس کھاتے ہیں۔ اس لئے اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی خواتین سروں پر برتن رکھے دور دور سے پانی لانے پر مجبور ہیں ۔ جس کی وجہ سے اکثر خواتین مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ گذشتہ روز چترال پریس کلب نے حسب روایت پسماندہ علاقوں کے مسائل گھر کی دہلیز پر سننے اور انہیں حکام تک پہنچانے کے مقصد کے تحت اورغوچ گاوں میں پریس فورم کا انعقاد کیا۔ جس میں علاقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور مسائل کے انبار لگا دیے۔
اس موقع پر علاقے کے مسائل بیان کرتے ہوئے سابق چیرمین یونین کونسل اورغوچ محمد ولی شاہ، شاہ نادر لال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کی پوری آبادی پانی کی نایابی کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس سال بارشین نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کیلئے چارہ و بھوسہ کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ لیکن باوجود بار بار درخواست اور مطالبات کے ہماری بے بسی پر حکومت رحم نہیں کھاتی ۔ اس لئے مزید مشکلات سے بچنے کیلئے گاوں والوں کیلئے ہجرت کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر آنےوالی حکومت  نے اورغوچ کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک کسی نے بھی عملی   اورمستقل بنیادوں پر یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے ۔ جس کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہاں مایوسی اور محرومی کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔
اس لئے کسی حکومتی نمایندے کی باتوں کا گاوں کے لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا فوری مسئلہ حل کرنے کیلئے سولر سسٹم کی تنصیب کی گئی ہے۔ لیکن یہ اس کا مستقل حل نہیں ہے۔ پینے کے پانی کی فراہمی کیلئے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے گاوں کے بالائی حصوں میں موجود چشموں کے پانی کو یکجا کرکے سپلائی کرنے کیلئے ٹینکی تعمیر کی ہے۔ مگر پائپ لائن بچھا کر لوگوں کو پانی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ جس کا لوگ شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چترال گول نالہ یا بجلی گھر چینل سینگور سے سائفن ایریگیشن کے تحت مستقل بنیادوں پر پانی فراہم کیا جائے اور حکومت ان میں سے کسی ایک منصوبے کیلئے مناسب فنڈ فراہم کرے تاکہ محرومی کا ازالہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ گاوں کو مین روڈ سے ملانے والی سڑک کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے ۔ اس لئے ایمر جنسی مریضوں کی اس راستے سے ہسپتال منتقلی ان کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2012سے2015تک مسلسل سیلاب میں ایریگیشن چینل، روڈز  مساجد اور پلوں کو نقصان پہنچا لیکن حکومت کی طرف سے  بحالی کا کوئی کام گاوں میں نہیں کیا گیا بلکہ ڈیزاسٹر فنڈ سے دروش میں عدالتی عمارت تعمیر کی گئی۔ جو کہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے گاوں کو مزید سیلاب سے بچانے کیلئے حفاظتی پشتوں کی تعمیر اور گاوں کے بالائی حصوں میں چیک ڈیمز کی تعمیر کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گاوں کے مختلف حصوں میں کنواں کھودے جائیں ۔ گلی کوچوں کو پختہ کیا جائے اور انتہائی نادار افراد کو لیٹرین کی سہولت فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کی صورت حال بھی افسوسناک ہے۔ پورے گاوں میں ایک بھی ہائی سکول نہیں ہے ۔ جبکہ طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ تعلیم کیلئے مناسب انتظام نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے بچیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ انہوں نے مردانہ مڈل سکول کو ہائی کا درجہ دینے، بچیوں کیلئے الگ مڈل سکول تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا۔ نوجوانوں کو بے روزگاری سے بچانے کیلئے چلغوزہ اور لائیو سٹاک سمیت لکڑی کے کام کی تربیت دینے کا مطالبہ کیا اور بلا سود قرضے فراہم کرنے کی اپیل کی ۔ تاکہ نوجوان اپنے پاوں کھڑا ہو  سکیں۔ 
انہوں نے کہا کہ 1989 میں پیپلز ورکس پروگرام کے تحت ڈسپنسری تعمیر کی گئی تھی۔ اس کیلئے دوسال پہلے سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن ابھی  تک ڈسپنسر اور چوکیدار تنخواہ سے محروم ہیں۔ انہوں اور غوچ پائین کی نئی آبادی کو بجلی فراہم کرنے کے لئے نئی ڈسٹری بیوشن لائن کی تنصیب کے  سلسلے میں ایم این اے چترال مولانا عبد الاکبر سے پر زور مطالبہ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما گوہر علی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انتہائی امید کے ساتھ عمران خان کو ووٹ دیا تھا مگر انہوں نے انتہائی مایوس کیا۔ آج زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اور غوچ گاوں کے مسائل حل کرنے وعدے کئے گئے۔ لیکن وہ سہانے خواب ثابت ہوئے۔ ابھی ہم ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!