میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
نوائےسُرود
شہزادی کوثر
معلوم نہیں تھا کہ چترال کی بیٹیاں اتنی بے حیثیت اور سستی ہو جائیں گی کسی نے بھی سوچا نہیں ہو گا کہ ہماری عزتوں کی علامت ملک کے دوسرے شہروں میں جا کر مجبوری اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی اور اگر زندہ رہنے کا جواز ختم ہو جائے تو کوئی بہانہ گھڑ کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔
چترال کی شرافت اور غیرت کی مثالیں دی جاتی تھیں،یہاں بیٹی کی پیدائش پر کبھی پریشانی اور افسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی پرورش اور شادی بیاہ کے معاملہ والدین مایوس اور غمگین ہوتے تھے۔تمام علاقے میں ایک دوسرے کی روایات کوقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،چاہے غریب گھرانہ ہی کیوں نہ ہو اپنی استطاعت کے مطابق بیٹی کی رخصتی اچھے طریقے سے کی جاتی تھی۔لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں جو کچھ بیٹیوں کے معاملے میں ہو رہا ہےوہ انتہائی پریشان کُن ہے۔
اپنے علاقے اور برادری کو چھوڑ کر بیٹی کسی انجان شخص کے پلے باندھ کر رخصت کیا جاتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں نہ کوئی تفتیش اور نہ ہی بازپرس کی جاتی ہےصرف دلال یا دولہے نما بڈھے کی جھوٹی باتوں پر بھروسہ کر کے اپنے جگرگوشے کو ان کے ساتھ وداع کرنے کا رواج عام ہو گیا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ بیچاری وہاں جا کر کس طرح کی زندگی گزارے گی اور اسے اس کی قسمت کا نام دے کرچپ سادھ لی جاتی ہے۔ادھر اس بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہو پلٹ کر اس کی خبر لینے کی نوبت بھی نہیں آتی۔ کتنی ہی بیٹیاں غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ کر زندگی کا خوفناک روپ دیکھ لیتی ہیں لیکن اس سے نکلنے کی کوئی بھی راہ نہیں پاتیں۔ کتنی ہی بیٹیوں کو اپنے شوہر اور گھر والوں کی طرف سے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ شہری علاقوں میں شادی بیاہ آسان نہیں ہوتا اس لیے کم پونچی والے،چھاپڑی والے اور مرغی فروش خود کو تجارت پیشہ یا کوئی افسر ظاہر کر کے چترال کا رخ کرتے ہیں۔یہاں کے لوگوں کی سادہ لوحی کا غلط فائدہ اٹھا کر شادی رچاتے ہیں۔
لڑکی کے والدین کو کچھ پیسے دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے لڑکی خرید لی ہے پھر اس زرخرید غلام سے جس طرح چاہتے ہے سلوک روا رکھتے ہیں۔ غریب والدین اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو جہنم میں ڈال رہے ہیں،یہاں سے تو وہ خوشی خوشی رخصت ہوتی ہے لیکن آگے جا کر کانٹوں سے بھرے کتنے راستوں کو عبور کرنا ہو گا اس کی خبر نہیں ہوتی۔ کئی سال پہلے دروش سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ جب اس کی لاش گھر پہنچی تو جسم زخموں سے چُور تھا اور اس کے ناخن بھی اکھیڑ دئے گئے تھے،سوات ،ایبٹ آباد اور کئی دوسرے علاقوں میں بھی چترالی بیٹیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا چکا ہے اور اب چنیوٹ میں پیش آنے والا گھناونا واقعہ سامنے ایا ہے کہ ماں اور کمسن بیٹی کو قتل کیا گیا ہے۔ ماں باپ اور اپنے پیاروں سے دور اس پر مظالم کے کتنے پہاڑ توڑے گئے ہوں گے۔اس نے زندگی کی کتنی بھیک مانگی ہوگی۔
اسے کس گناہ کی سزا دی گئی اور کیوں؟ کیا وہ اپنے ساتھ جہیز کے نام پر ٹرک بھر کر نہیں لے گئی؟ یا گھر والوں کی توقعات پر پوری نہیں اتر پا رہی تھی؟ وجہ کچھ بھی ہو قاتل اسے ہی مورد الزام ٹھرا کرخود کو معصوم ثابت کرنے کے لیے کوئی جھوٹی کہانی گھڑے گا۔اگر قانون کی گرفت میں آکر اپنے جرم کا اقرار کر بھی لے تو یہ غمزدہ والدین کے زخموں پرمرہم رکھنے کے مترادف کبھی نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی ان کی روحوں کو چھلنی کرنے کے گناہ کا کفارہ کبھی ادا ہو پائے گا۔ عورتوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے سد باب کے لیے قانون سازی نا گزیر ہے۔کے پی حکومت نے خواتین پر تشدد کی روک تھام کا قانون اتفاق رائے سے منظور کیا ہے البتہ اس پر عمل درامد میں کافی وقت لگے گا۔ صرف قوانین بننے اور لاگو ہونے تک ہمیں خاموشی سے کسی دوسری زندگی کی قربانی کا انتظار کرنا پڑے گا یا اپنا کوئی فریضہ انجام دینا ہو گا؟ اس بارے میں خاموشی سنگین جرم ہے۔چترالی عوام۔باختیار اداروں اور سیاسی سطح پر اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام ایسے جھوٹے اور دغاباز افراد کو بے نقاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو شرافت کا لبادہ اوڑھ کر لڑکیوں کی خرید و فروخت کے مکروہ کام میں ملوث ہیں۔ خاص کر اس شخص کا چہرہ بے نقاب کرنا ضروری ہے جو دلال کے طور پر رشتہ کروانے کے لیے کمیشن لیتا ہے۔ والدین کو بھی چاہئیے کہ اپنی اولاد کو چند پیسوں کے لالچ میں کسی اپاہچ، بیمار اور بیروزگار بڈھے کے حوالے کر کے ان کی تذلیل نہ کریں۔ اور یہ بات بھی اپنے ذہن سے نکال دیں کہ کوئی بھی پلاٹ، بنگلہ یا جائداد اپ کی بیٹی کے حق مہر میں نہیں دے گا۔اگر ان کی اتنی استطاعت ہو تو ان کے خاندان والے اپنے بیٹیوں کی شادی ان سے کیوں نہیں کر رہے؟ کوئی پیسے والا، بڑا افسر،کروڑوں کا مالک،اور لاکھوں میں کھیلنے والا والدین کا اکلوتا چترال آکر غریب کی بیٹی کواپنی پہلی بیوی ہرگز نہیں بناتا ایسے سونے کی چڑیا کے لیے اس کے اپنے خاندان کی لڑکیاں جال پھیلائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ابھی بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اپنی بیٹیوں کی عزت ہم خود نہیں کریں گے تو معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہیں ہو گا۔
ان لوگوں کے پاس یہ بہانہ ہے کہ چترال کی لڑکیاں شریف ہوتی ہیں اس لیے ہم یہاں رشتہ کرنا چاہتے ہیں ۔تو کیا شرافت کی سزا یہ ہے کہ اس پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جائے اگر کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کی زندگی ہی چھین لی جائے۔۔۔۔۔
ہاں چترال کی بیٹیاں شریف ہوتی ہیں کہ جن والدین نے انہیں چند ٹکوں کے عوض اپنی نظروں سے دور کیا ہوتا ہے ان کی عزت کی لاج رکھتی ہوئی سب کچھ سہ جاتی ہیں اور برداشت کا حوصلہ ختم ہو جائے تا جان بھی دے دیتی ہیں۔۔ ایسی شریف بیٹیوں کی عزت کی کیا قیمت لگائی ہے آپ نے؟ اس بیٹی کی اتنی سبکی کیوں ہوئی کی کہ اپنی جنم بھومی کی مٹی بھی اسے نصیب نہ ہو سکی؟ وہ تو گزر گئی لیکن اس کی خاموش چیخیں یہ کہتی رہیں گی۔۔۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے