دریا کے اِس پار
تحریر: کریم اللہ
چترال میں آئے روز نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں کے خود کشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں جو کہ چترال کا ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے لیکچرر ظفر احمد کی ریسرچ کے مطابق صرف 2007ء اور 2011ء کے دوران 300 نوجوانوں نے خود کشی کرکے اپنی زندگیوں کا چراغ گل کردیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2013ء اور 2019ء کے دوران ایک 176 افراد بالخصوص نوجوانوں نے خود کشی کرلی۔
خود کشی کرنے والوں میں سے82فیصد کی عمریں پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہے جن کی اکثریت یعنی 58فیصد خواتین ہے جن میں سے 15فیصد شادی شدہ خواتین کی ہے۔ خود کشیوں کے بڑھتے رجحانات کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہے جس میں بالخصوص گھریلو تشدد، ازدواجی زندگی میں ناچاقی، سماجی دباؤ، تعلیمی پریشر اور ملازمتیں نہ ملنا سرفہرست ہے۔ آج سارے چترالیوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اس سلسلے میں سماجی حلقوں میں آگاہی پھیلانے کی حد تک میڈیا میں اس ایشو پر بات چیت ہوتی ہے مگر کوئی ٹھوس اقدامات تاحال نہیں اٹھائے گئے۔
چترال میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے سماجی وجوہات کے حوالے سے امریکہ میں مقیم چترالی معروف بزنس وومن نگہت اکبر شاہ نے اس سارے مظاہر کو فلمانے کی کوشش کی ہے ۔ اور ”دریا کے اِس پار” نام سے ایک فلم ریلیز ہونے جارہا ہے۔ جس کا مین تھیم خواتین کی خودکشیاں ہے۔ اس فلم میں جو نام اور کردار استعمال ہوئے ہیں وہ محض خیالی ہیں ان کا کسی واقعے سے مشابہہ ہونا محض اتفاق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے بولڈ اسٹیپ لینے سے ہی پالیسی میکرز کو اس گھمبیر مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانے میں کامیابی ملے گی۔
چترال کے اس ابھرتے ہوئے گھمبیر مسئلے کو اجاگر کرنے میں “دریا کے اِس پار” یقینا کامیاب ہوگی۔