فقیر بستی میں تھا” از علی اکبر ناطقؔ”
تجزیہ: ظہیر آحمد
علی اکبر ناطق نے “فقیر بستی میں تھا” کی صورت میں مولانا محمد حسین آزادؔ کے حوالے سے موجود لٹریچر میں اہم اضافہ کیا ہے۔ ظاہر ہے مولانا آزادؔ پر اس سے پہلے بھی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں مگر “فقیر بستی میں تھا” ان سے اپنے اسلوب کی وجہ سے منفرد ہے۔ ناطقؔ صاحب کا طرز بیان بنیادی طور پر ایک داستان گو کا ہے۔ اس کتاب میں بھی انہوں نے کلاسیکی زبان اور داستان گوئی کے لہجے کو خوب برتا ہے۔ یہ آزادؔ کی سوانح پر مبنی دوسری تحقیقی کتابوں سے زیادہ دل پذیر اور سلیس لب و لہجہ کا حامل ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے قاری خود کو ایک جیتے جاگتے مولانا آزادؔ سے بالمشافہ ملاقات کرتے اور اس دور کے دہلی اور لاہور میں گھومتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔
اس کے باوجود ایک سنجیدہ قاری کو اس کتاب کے کچھ گوشوں میں تشنگی کا احساس ضرور ہوگا۔ اسکی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ غالباً مصنف کا مولانا آزادؔ کیساتھ بے انتہا عقیدت اور دلی وابستگی ہے۔ اس عقیدت اور وابستگی کا نتیجہ ہے کہ بعض جگہ واقعیت نگاری اور حقیقت پسندی کی کمی اور کسی حد تک مبالغے کی بہتات نظر آتی ہے۔
سوانح نگاری دراصل تاریخ نگاری ہی کی ایک ضمنی قسم ہے۔ خصوصاً کسی ایسے شخصیت کی سوانح مرتب کرنا تاریخ نگاری کے زمرے میں آتا ہے جسے گزرے صدی سے زیادہ عرصہ ہوا ہو۔ ایسے میں اس شخصیت کو اپنی تمام تر عقیدتوں اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر نسبتاً کڑے معیار پر پرکھنا اور قاری کے سامنے پیش کرنا احساسِ زمہ داری کا متقاضی ہے۔ مصنف اس حوالے سے کتنا کامیاب ہوئے ہیں یہ دیکھنے کیلئے کتاب کے چند ایک موضوعات کا تنقیدی جائزہ لینا مفید ثابت ہوگا۔
مولانا محمد حسین آزادؔ ایک عظیم ادبی شخصیت تھے۔ عظیم شخصیتوں پر بحث و مباحثے اور بات ہوتی رہتی ہے۔ مولانا آزادؔ کی فکری، علمی یا عملی زندگی کے گوشوں پر بھی بات ہوئی ہے اور بعض دفعہ کسی حوالے سے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ سوانح نگار کی زمہ داری ہے کہ وہ ان نکات کو من و عن قاری کے سامنے پیش کرکے انکا غیر جانبداری سے تنقیدی جائزہ لینے کی بعد اپنا موقف پیش کرے۔ علی اکبر ناطق صاحب مولانا آزادؔ کے حوالے سے کئی ایک سوالات اور اعتراضات کا تشفی جواب دینے میں کامیاب رہے ہیں البتہ چند ایک مباحثے ایسے ہیں جہاں وہ انکا جائزہ لینے کے بجائے انہیں کسی نہ کسی طریقے سے رد کرنے کی تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ان معترضین کو سخت بُرا بھلا کہتے تامل نہیں کرتے جو مولانا آزادؔ کے کام اور شخصیت پر سوال اٹھانے کی “جسارت” کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اس بنیادی نکتے کو نظر انداز کرتا ہے کہ شخصیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سوالات اور اعتراضات کا ابھرنا علمی مباحثوں اور ادبی تنقید کا فطری اور ناگزیر امر ہے اور یہ دوسرے سوانح نگاروں کیلئے دعوت ہوتا ہے کہ وہ ان سوالات پر خندہ پیشانی سے نظرثانی کرکے اپنا موقف دے۔ البتہ مصنف کا مولانا آزادؔ کے علمی اور ادبی زندگی کو نقادوں کیلئے “نو گو ایریا” ڈکلئیر کرنا مناسب نہیں۔
مولانا آزادؔ کی زندگی کے آخری دو عشروں کا کتاب میں تفصیلی ذکر ہے جس میں مولانا کسی نفسیاتی عارضے کی وجہ سے وارفتگی کا شکار ہوئے اور دنیائے دوں سے بے نیاز لاہور کے مضافات میں پیدل گھومتے پھرتے رہتے۔ مولانا کی زندگی کے اسی دور کے چند ایک واقعات بھی کتاب میں مذکور ہیں جن سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ مولانا صاحب کی نفسیاتی صحت کس قدر بگڑ چکی تھی اور وہ کس شدت سے بے خودی کا شکار تھے۔ البتہ مصنف مولانا آزادؔ سے اپنی بے پناہ عقیدت کی وجہ سے انکی ان کیفیات کو بھی روحانی جذب و حال کے طور پر پیش کرنے پر مصر ہے۔ واقعاتی شواہد کے برخلاف وہ انہیں سلوک کی منزلوں میں غرق کسی پہنچے ہوئے صوفی کے حالات کے طور پر پیش کرتا ہے۔
کتاب کا ایک بڑا حصہ مولانا آزادؔ کے سفرِ وسط ایشیا پر محیط ہے۔ انیسویں صدی کے دوران ہندوستان میں موجود انگریزوں اور روسیوں کے مابین سینٹرل ایشیا گریٹ گیم کا میدان بنا رہا۔ انگریزوں کو خوف لاحق تھا کہ روس کسی بھی وقت سینٹرل ایشیا اور افغانستان کی کمزور ریاستوں کو روندتا ہوا برِصغیر پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ چنانچہ گریٹ گیم کے دوران انگریزوں نے روس کی جاسوسی کی غرض سے کئی انگریز آفیسرز وسط ایشیا بھیجتے رہے۔ 1842 میں بخارہ میں دو انگریز فوجی کنولی اور سٹوڈرٹ کو پکڑ کر قتل کیا گیا تو انگریزوں نے مقامی اہلکار بھیجنے شروع کیے۔ یہی وہ دور تھا جب مولانا محمد حسین آزادؔ کو ایک خفیہ مشن پر وسط ایشیا بھیجا گیا۔ آزادؔ کے اس سفر کو بعد میں چند لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مصنف وسط ایشیا کی اس مہم کو مولانا آزادؔ کی مجبوری کے طور پر پیش کرتا ہے جس سے انکار کرنے کی قدرت مولانا آزادؔ کو حاصل نہ تھی اور یہ کہ وہ انگریز افسر جی ڈبلیو لائیٹنر کے اصرار اور دھمکی پر ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔ حالانکہ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ اس قدر حساس مہم میں مولانا آزادؔ کی اپنی رضا شامل نہ ہو۔ ایسے مہمات پر عموماً ان افراد کو بھیجا جاتا تھا جو تحقیق، سیاحت یا ایڈوینچر کی غرض سے سفر کیلئے خود رضاکارانہ طور پر تیار ہو۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مولانا آزاد کو اس قدر اہم مشن پر انکی مرضی کے بغیر بھیجا گیا۔ یہ دراصل مصنف کی طرف سے مولانا آزادؔ کا انگریزوں سے مل کر اپنے ہم مذہب لوگوں کی جاسوسی کرنے کے الزامات کو دور کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔
اس مہم کے پُرخطر ہونے پر زور دیتے ہوئے مصنف کا کہنا ہے کہ مولانا آزادؔ سے قبل جو 113 مہم وسط ایشیا بھیجے گئے تھے انکے سارے لوگ مارے گئے تھے اور ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ یہ بات قطعاً درست نہیں۔ گریٹ گیم کی تاریخ سے سطحی واقفیت رکھنے والے شخص کو بھی معلوم ہوگا کہ بھیس بدل کر ان علاقوں کی جاسوسی خطرناک تو تھی البتہ اس حد تک ناممکن بھی نہ تھی۔
مولانا آزادؔ غدر کے ہنگامے کے بعد نہایت کسمپرسی کی حالت میں لاہور آگئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے علمی اور ادبی حلقوں میں نام کمایا اور محکمہ تعلیم میں اچھی جگہ پائی۔ اس میں مولانا آزادؔ کی اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے علاوہ علومِ شرقیہ کے ماہر جی ڈبیلیو لائٹنر کی گوہر شناس نگاہوں کا بھی کافی عمل دخل تھا جس نے مولانا آزادؔ کی صلاحیتوں سے بھرپور کام لیا۔ لائٹنر کو کئی مشرقی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے گلگت، ہنزہ اور چترال جیسے علاقوں کی سیاحت کرکے وہاں کی زبانوں اور قبائل پر خاطر خواہ تحقیق کی اور کتابیں لکھیں۔ انجمنِ پنجاب کی داغ بیل بھی انہوں نے ڈالی۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی اور پہلے پرنسپل تھے مگر مصنف نے ان اختلافات کی وجہ سے جو بعد میں مولانا آزادؔ اور لائٹنر کے بیچ پیدا ہوئے تھے، انکی تمام خدمات کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔ کتاب پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ لائٹنر ماہرِ لسانیات اور اسکالر کے بجائے محض ایک جاسوس تھا جسکی تمام تر علمی اور ادبی سرگرمیوں کے پسِ پردہ خفیہ عزائم موجود تھے۔ مصنف انہیں ایک سازشی یہودی کے طور پر پیش کرتا ہے حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ برطانیہ کی سب سے پہلی مسجد “مسجدِ شاہ جہان” لائٹنر نے 1889 میں تعمیر کروائی تھی۔
اس مختصر اختلافی نوٹ کے باوجود مکرر عرض کر رہا ہوں کہ “فقیر بستی میں تھا” مولانا محمد حسین آزادؔ جیسی نابغہِ روزگار اور ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں تخلیق شدہ لٹریچر کی اولین صف میں شامل کرنے کے قابل ہے۔ یہ کتاب اپنے دلکش پیرائے کی وجہ سے اس قاری کے ذوق کی تسکین کا سامان بنے گی جو تاریخی اور تحقیقی بکھیڑوں میں پڑے بغیر مولانا آزادؔ کو جاننا چاہتا ہو۔