لگائی بجھائی زوروں پر
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
کسی نے کہا لگائی بجھا ئی زوروں پر ہے تو ہم نے کئی اردو نا ولوں کو یا د کیا پھر ’’لگا ئی بجھا ئی‘‘ کی تر کیب پرغور کیا اور حالات حاضرہ کے تناظر میں اس ترکیب کے استعمال پر بارِدگرتوجہ دی تب کہیں جا کر یہ عقدہ کھلا کہ جو کچھ اس وقت ہورہا ہے یہ بھی لگا ئی بجھا ئی کا ایک مخصوص اندازہے
ایک اینکر یا بلا گر کسی سیاسی لیڈر سے سوال پوچھتا ہے پھراس کے جواب پرتولہ، رتی ماشہ نہیں پورا سیر، دوسیر مصالحہ اپنی طرف سے ڈالتا ہے دوسرے سیا سی لیڈر کے پا س ملغوبہ لے جاتا ہے اس کے جواب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس زما نے میں لگائی بجھائی کی ترکیب وضع کی گئی اُس زما نے میں ٹیلی وژن نہیں تھا، سوشل میڈیا بھی نہیں تھا یو ٹیو ب کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا اُ س زما نے میں دیہات اور شہروں کی ادھیڑ عمر خواتین محلے کے گھروں میں جا تی تھیں کچھ خبریں وہاں سنا تی تھیں کچھ باتیں وہاں سے ہاتھ آتی تھیں کچھ مصا لحہ اپنی طرف سے ملا کر بات کا بتنگڑ بناتی تھیں دوسرے گھر میں جا کر محلے بھر کی خبروں کے ساتھ اس گھر کی خبریں بھی جی بھر کر سنا تی تھیں ان خواتین کو خا لہ یا پھو پھو کا نام دیا جا تا تھا یہ رشتے کرانے میں مہارت رکھتی تھیں اور رشتے تڑ وانے میں بھی طاق ہوا کر تی تھیں اگر منگنی ہوگئی یا ٹوٹ گئی تو سب لوگوں کو پتہ لگتا تھا کہ اس میں لگائی بجھائی والیوں کا کمال ہے گویا آگ لگانا اور آگ بجھانا ان کے بائیں ہاتھ کی کچی انگلی کا کھیل ہوا کرتا تھا
اس لئے ان کے لئے لگائی بجھا ئی وا لیوں کی بات کی جاتی تھی آج کل میڈیا کے جدید دور میں گھر گھر جا نے والی خا لہ یا پھو پھو اپنی جگہ مو جود ہے مگر ان کے کا م کا بڑا حصہ میڈیا پر جلو ہ دکھا نے والی بھا بیوں اور آنٹیوں نے سنبھا لا ہوا ہے تاہم اب یہ خا لصتاً خواتیں کا شعبہ نہیں رہا اس شعبے میں مر د بھی آگئے ہیں انگر یزی میں ان کو اینکر کہا جا تا ہے اردو میں ان کو گما شتہ نہیں کہتے بلکہ اینکر ہی کہتے ہیں جب سے ان لو گوں نے خا لا وں اور پھو پھیوں کی جگہ لے لی ہے تب سے لگائی بجھا ئی کی رفتار میں تیزی آگئی ہے قدیم زما نے میں لگا ئی بجھا ئی والیاں رشتوں کو ٹارگٹ کرتے تھے بہن بھائی کے جھگڑے ، ساس بہو کے باہمی معا ملا ت ، میاں بیوی کی نا راضگیاں اور ہمسا یوں کی آپس میں مناقشے ان کے پسندیدہ مو ضو عات ہوا کر تے تھے جدید زما نے میں لگائی بجھا ئی والوں اور والیوں نے اپنی تو پو ں کا رخ سیا ست کی طرف کر دیا ہے سیا سی مخا لفین کی مخا لفتوں کو بڑھا چڑ ھا کر پیش کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے ، یہ لو گ دو سیا سی پارٹیوں کے جھگڑے میں ٹانگ اڑا نے کے ساتھ ساتھ ایک ہی پارٹی کے اندر سے مخا لفت کی آوازیں پیدا کرکے ان آوازوں کو آسمان کی بلندیوں تک لے جا تے ہیں اور پارٹی کے اندر ٹوٹ پھو ٹ پیدا کر کے مزے لیتے ہیں
خا لد مقبول صدیقی یا مولانا محمد خا ن شیرانی جیسا بڑا سامی مل جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے ایسا کوئی نہ ملے تو چھوٹی مو ٹی خبروں پر رنگ و روغن کر کے وقت گذار لیتے ہیں یہ ایسا دھندہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا چچا، ما موں اور خا لہ ، پھو پھو کی قسم کے جن قد آور لو گوں کو ٹیلیویژن چینلوں پر گل کھلا نے کا پورا موقع نہیں ملتا یا مو قع ہی نہیں ملتا وہ یو ٹیوب کا سہا را لیتے ہیں ، یو ٹیوب میں اپنا بلاگ قائم کرتے ہیں اس بلاگ کی مدد سے گھر گھر جا کر لگائی بجھا ئی میں مصروف رہتے ہیں ہمارے دوست پرو فیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ ملک کے کسی گاوں اور شہر میں اتنی سیا سی سر گر می نظر نہیں آتی جتنی سر گر می سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن پر دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے مو صوف کا مشورہ ہے کہ آئیندہ پا رلیمنٹ ، عدالت عظمیٰ اور ایوان صدر ، وزیر اعظم سکر ٹریٹ کو بھی سو شل میڈیا پر منتقل کر دیا جائے تاکہ ہمارا ملک سیا ست کی آلود گیوں سے پا ک ہو ہوائی قلعے ہوا میں تعمیر ہوں اور لگائی بجھا ئی اسی طرح زور وں پر رہے