طفیلی رویہ
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہر کام میں دوسرے پر انحصار کرنا طفیلی رویہ کہلا تا ہے پودوں میں بعض ایسے پھو ل اور پھلدار پودے ہوتے ہیں جو اپنی جڑوں پر اپنے تنے کی مدد سے کھڑا نہیں ہو سکتے وہ کسی دیوار یا درخت کے ساتھ چمٹ جا تے ہیں ان کو طفیلی پودا کہا جا تا ہے انگور کی بیل اس کی نما یاں مثال ہے سما جی اور معا شرتی زند گی میں انسا نوں کے ہاں بھی بعض اوقات ایسا رویہ پر وان چڑھتا ہے جس کو طفیلی رویہ کہا جا تا ہے نو کری حا صل کرنے کے لئے، ملا زمت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیلی کے لئے عموما ً دوسروں کا سہا را لیا جاتا ہے
عوامی نما ئیندوں کے وقت کا بڑا حصہ ایسے کا موں میں ضاءع ہو جاتا ہے ایک سیا سی لیڈر نے 47دن انتخا بی مہم چلا یا وہ جہاں جاتا تھا لو گ در خواستیں پیش کرتے تھے وہ ان درخواستوں کو جمع کرتا تھا انتخا بات میں کا میا بی کے بعد اُس نے تما م درخواستوں کا جائزہ لیا 47دنوں کی محنت کے بعد اس کو 29ہزار ووٹ ملے تھے قریب ترین حریف پر 2ہزار ووٹوں کی بر تری سے جیت گیا تھا مو صولہ درخواستوں کی تعداد 67ہزار تھی ان میں سے 50ہزار درخواستیں نوکری کے لئے دی گئی تھیں 12ہزار درخواستیں تبدیلی کے لئے دی گئی تھی 3ہزار درخواستیں بینک قرضوں کی معافی کے لئے تھیں اور دو ہزار کا غذات ایسے تھے جن میں پارٹی کے لئے اپنی خد مات کا ذکر کر کے سلا ئی مشین، مو ٹر، لاری، گھر کی تعمیر کے لئے امداد وغیرہ کی درخواست کی گئی تھی کسی اجتماعی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک درخواست بھی نہیں تھی
وجہ یہ ہے کہ سارے ووٹر چا ہے اس کے حا می ہو ں یا مخا لف اُس کی مو جود گی سے فائدہ اٹھا نا چاہتے تھے دوسری پارٹیوں کے لو گ بھی اس کے جلسے میں آکر چلتے پھر تے اٹھتے بیٹھتے درخواست جمع کرنا چاہتے تھے سب کے سب طفیلی مزاج رکھتے تھے اجتما عی مفاد کسی کے پیش نظر نہیں تھا سب کے سب ذاتی مفاد حا صل کرنا چاہتے تھے ہمارا رویہ ایسا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا کام خود کرنا نہیں چاہتا ہر ایک کی خواہش اور تمنا ہے کہ اُس کے حصے کا کام کوئی اور کرے کسی دوسرے ملک اور معا شرے میں یہ رواج اور دستور، یہ رویہ اور سلوک دیکھنے کو نہیں ملتا یورپ اور امریکہ میں بر فباری ہو جا ئے تو ہر گھر کے ما لک اپنے احا طے میں سڑک اور گلی سے برف ہٹا کر راستہ خود صاف کرتا ہے
نیپال اور تھا ئی لینڈ ایشیاء کے تر قی پذیر اور غریب مما لک میں شمار ہوتے ہیں وہاں ہر گھر کا ما لک کچرا صاف کرنے میں میو نسپل کمیٹی کی مدد کرتا ہے میو نسپل کمیٹی سے تو قع نہیں کرتا کہ وہ میرے گھر کا کچرا بھی صاف کرے گی ہر گھر سے کچرے کے دو تھیلے سفید اور زرد میونسپل کمیٹی کی کچرا کنڈی میں جمع کئے جا تے ہیں کمیٹی وہاں سے اٹھا کر ایک تھیلے کا کچرا جلاتی ہے دوسرے تھیلے کا کچرا خندقوں میں دبا کر زمین کے لئے کھا د بنا تی ہے گھر کے اندر مرد اور خواتین مل کر چھلکے وغیرہ الگ کر کے ایک تھیلے میں ڈالتے ہیں بوتل ، شیشے وغیرہ دوسرے تھیلے میں ڈالتے ہیں یہ کام کمیٹی والوں پر نہیں چھوڑ تے کیونکہ وہاں طفیلی کلچر نہیں ہے ان کو پتہ ہے کہ ریا ست ہی ہر کام کی ذمہ دار نہں ہوتی کچھ کام شہری کو بھی کرنے ہو تے ہیں بلکہ زیا دہ کام شہری کو ہی کرنے ہو تے ہیں مثلاً وہاں نوکری کے لئے یا تر قی اور تبدیلی کے لئے کوئی شہری عوامی نما ئیندے کے پا س نہیں جا تا مثلا ً بینک سے قرض لینے یا معاف کرانے کے لئے کوئی شہری عوامی نمائندے کا سہارا نہیں لیتا
اسی طرح بے شمار مسا ئل رو زمرہ زند گی میں پیش آتے ہیں جن کو ہر شہری خود حل کرتا ہے دوسرے کی مدد کا طلب گار نہیں ہوتا ہمارا سما جی اور معاشرتی رویہ ایسا نہیں ہے ایک ایم پی اے نے وزیر تعلیم سے اساتذہ کے وفدکے لئے ملا قات کا وقت لیا وفد کی معروضات کو سننا تھا وزیر تعلیم نے نئے سکو لوں کی تجا ویز ، اضا فی کمروں کی تعمیر ، لیبارٹری اور لائبریری کے مسائل کھیلوں کے سامان وغیرہ پر ایک بریفنگ تیار کر وائی وفد کی ملا قات میں ان پر بات نہیں ہوئی اساتذہ کا وفد جو مسائل لیکر آیا تھا ان میں اساتذہ کی تبدیلی اور امتحا نی ڈیو ٹی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا یہ طفیلی رویہ اساتذہ میں بھی نما یاں تھا