مادری زبان کا تحفظ
ھندوستان کے وائسرائے ایک دفعہ مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے ان کے رھائش گاہ پر گئے ترجمان ان کے گفتگو کی ترجمانی کر رھا تھا مولانا کی گفتگو کے دوران ترجمان نے کچھ غلطی کی مولانا فوراً ہی اسے ڈانٹا تو وائسرائے نے کہا آپ خود انگریزی میں کیوں نہیں بولتے
جواب میں مولانا نے کہا کہ آپ ھزاروں میل کی مسافت پر اردو نہیں بولتے میں اپنے گھر میں بیٹھ کر کیوں انگریزی بولوں
مگر آج ھماری حالت یہ ھے کہ ھماری نوجوان نسل تقریر اور بحث مباحثے کے دوران اانگریزی الفاظ کی بھرمار کو اپنی قابلیت اور شخصیت کی علامت سمجھتے ھیں ھمارے چترال کے صرف ایک ہی خاندان کے لوگ اپنی مادری زبان کھوار پر فخر کرتے ھیں وہ ھے
شاھی خاندان نام ونسب کے صحیح شہزادے کسی بھی حالت میں بھول کر بھی انگریزی یا اردو الفاظ کھوار بولتے وقت زبان پر نہیں لاتے حالانکہ وہ سب بارن ھال اور ڈیرہ دون وغیرہ کے پڑھے ھوئے ھیں
ایک واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ھے ڈاکٹر شہزادہ سرردار الملک آغا خان ھیلتھ سروس سے اپنی وابستگی کے دوران ھمارے گاؤں کے ھیلتھ سنٹر میں لوگوں کو بریفنگ دے رہے تھے ان کے کھوار الفاظ یوں تھے اسپا کیا موش الدو ژورگینی کی غرضمان بونیان ھیتان تان ویزان اوچے شونجان پھتوکی نو کورے لیک ھے غرضمان لوو بو ژورگنی ھوش نو ارینی ھم نے انہیں بتایا کہ غرضمان حاملہ کو کہتے ھیں۔
علی جبار خان