دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
کاینات کی ترتیب و تخلیق ہی ایسی ہے کہ اس میں تغیر و تبدل کا عنصر لازم ہے۔انسان کو ہمیشہ ان افات کا سامنا رہا ہے۔۔انسان اس لحاظ سے کمزور جسمانی لحاظ سے کمزور مخلوق ہے وہ ایسی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔۔معمولی سیلاب اس کو بہا کر لے جاتا ہے۔زلزلہ کا ایک جھٹکا اس کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔گرمی سردی بھی اس کی برداشت سے باہر رہی ہیں ۔ایک وایرس اس کو ہلکا کر رکھ دیتا ہے۔۔بس وہ اپنی عقل کے بل بوتے ان کے مقابلے کے لیے تدابیر بناتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق ان سے مجفوظ ہونے کی سعی کرتا ہے۔۔
موجود صدی ایک لحاظ سے ساینسی ترقی کی صدی رہی ہے۔۔اس صدی میں پیدا ہونے والے انسان نے سب سے زیادہ تبدیلیاں دیکھا۔۔حیرت انگیز ساینسی ایجادات ہوے مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان بہت زیادہ آفات کا شکار ہوا ۔۔کچھ ان کے اپنے ہاتھوں تباہی آئ کچھ نیچر نے جھجھوڑ کے رکھ دیا ۔۔کرہ ارض پر بہت زیادہ تبدیلیاں آنے کے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے ۔کیونکہ درجہ حرارت کا بڑھنا جنگلات کا ختم ہونا پانی کی کمی زیرزمین تغیر انسانی حیات کے لیے الارمنگ ہیں ۔۔اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوے انسانوں نے سوچنا شروع کیا کہ ان افات سے کیسے نمٹا جاے لازم ہے کہ ان کو روکنا ممکن نہ ہو مگر ان سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔۔اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کئ پروگرام اس سلسلے میں دنیا میں سرگرم ہیں۔۔ان کے علاوہ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اس سلسلے میں بہت فعال رہا ہے۔۔چترال اور شمالی علاقاجات قدرتی آفات کے لحاظ سی ہمیشہ ریڈ زون میں رہے ہیں ۔۔2005ء کا تباہ کن زلزلہ 2008ء کی بارشیں 2013ء کاسیلاب 2014ء کا زلزلہ اور 2015ء کے سیلاب نے یہاں پر جو تباہی مچاہی اس کی صدی میں مثالیں نہیں ملتیں۔۔
ان مسلسل آفات سے بچنے کی تدایر کے سلسلے میں فوکس پروگرام بڑا فعال رہا ہے اور ساتھ آے کے آر ایس پی کی خدمات نمایان ہیں حکومت کی طرف سے ڈزاسٹر منیجمنٹ کام کر رہی ہے ۔۔اے کے آر ایس پی کی طرف سے AKaHاس سلسلے میں مختلف سرکلز میں اگاہی ٹرینگ کا اہتمام کررہی ہیں ۔۔انھوں نے اس سلسلے میں چترال کے کم از کم گیارہ یوسیز میں ٹریننگز کراے ۔ان پروگراموں میں ایک پانچ روزہ ٹرینگ بمبوریت میں منعقد کی گئ ۔۔یہ ٹرینگ Aga Khan Agency for Habitat اورNational Disaster Risk Management Fund نے اہتمام کیا تھا ۔۔ٹریننگ پانچ دن کی تھی اور Basic CBDRM کے لیے تھی ۔۔۔ٹرینگ کا نام CERTتھا یعنی community cluster emergency response team کو ٹرینگ دی جا رہی تھی ۔۔۔ٹرینرز اویس احمد اور فرزانہ بڑے منجھے ہوے ٹرینرز تھے انھوں نے ان پانچ دنوں میں علاقے کے 24افراد کو ٹرینگ دی تھی ٹرینیز میں زیادہ تعداد خواتیں کی تھی۔خوش ایند بات ہے کیونکہ آفات کے سمے زیادہ متاثر خواتیں اور بچے ہوتے ہیں ۔۔آخری دن ہایر سکنڈری سکول بمبوریت سے انچارچ پرنسپل شفیق احمد اور ناچیز کو بھی دعوت دی گئ ۔۔ٹرینگ ایک مقامی ہوٹل الیکزنڈر پوسٹ میں منعقد کی گئ تھی۔۔
ہم جب پہنچے تو ہمیں ٹرینگ کے مقصد بتاے گءے ۔پھر ٹرینیز سے مختلف مہارتوں کا مظاہرہ کرایا گیا ۔۔آفت آنے کے بعد ان کر ایک بے ہوش زخمی ملتا ہے اس کو کیسے بچاتے ہیں ۔۔ایک شدید زخمی ملتا ہے اس کو کیسے اس جگہ سے اٹھاتے ہیں ۔۔وہ ایک دوسرے کو اطلاع کس طرح دیتے ہیں ۔متاثرہ جگہ کی تلاشی کس طرح لیتےہیں ۔۔آپس میں زمہ داریا ں تقسیم کرتے ہیں ایسا نہیں کہ اس جلدی میں سب ایک طرح کا کام کریں ۔ان مظاہروں سے پتہ چلا کہ ٹرینرز نے انتھک محنت کے بعد ان لوگوں کو ٹرین ہی نہیں کیا بلکہ ان کو ایسی آگاہی دی ہے کہ وہ ہر وقت تیار رہیں گے اور آگے اس تربیت کو پھیلانگے۔۔۔آخر میں مختصر نشست ہوئ ۔۔زاہد عالم نے تفصیل سے اس پروگرام اور تربیت پر روشنی ڈالی۔۔
سکول کے انچارچ پرنسپل شفیق احمد نے اپنے خطاب میں اے کے ار ایس پی کی خدمات کو اس پسماندہ علاقے میں خراج تحسین پیش کیا۔۔انھوں نے کہا کہ انسانیت کو مصیبت سے بچانا اور مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے انھوں نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ یہ مہارتیں اگاہی اور تربیت آگے تک پہنچایں گے انھوں نے اویس صاحب اور فرزانہ صاحبہ کو ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور کام سے لگن پر خراج تحسین پیش کیا ۔۔شرکاء میں سرٹیفیکیٹز تقسیم کی گیں ۔۔محفل میں بمبوریت پولیس کے حوالدار صاحب اپنے جوانوں سمیت شریک تھے ۔ لنچ دی گئ ۔۔فوٹو گرافی کی گئ ۔۔۔ہم اویس اور فرزانہ کو شاباشی دی اور رخصت ہوے ۔۔۔
آپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس. جہان میں
ہے زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا
میں ہوٹل کے منیجر اور سماجی کارکن یاسر صاحب سے رخصت ہو ریا تھا تو یہ شعر بار بار یاد آرہا تھا۔۔