ہاۓ میری تنخواہ واۓ میری تنخواہ
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
ہاۓ میری تنخواہ واۓ میری تنخواہ۔۔میں “تنخواہ” نام کے اس معاوضے کو 1500روپے کے حساب سے لینا شروع کیا۔ کلرک نے پہلی بار لاکر تھما دیا۔ اس سمے مجھے گویا دنیا جہان کی دولت مل گٸ۔ لا کر ماں کی مٹھی میں رکھ دیا۔ ماں میری غیر موجودگی میں ابو کے سامنے رکھ دیا۔ باپ نے شکر کرنے کے بعد ماں کو واپس کر دیا۔۔کہا بچہ ہے اس سے کہوں خود خرچ کرے۔۔
میری پنشن ہم دونوں کے لیے کافی ہے ۔خرچ کیا کرنا تھا بس گھر کے لیے سامان کی خریداری کی ۔۔پھر دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کا شدت سے انتظار ہونے لگا ۔دن کاٹتا رہا ۔ہر نکلتا سورج ایک امید لے کے أتا اور ڈوپتا سورج امید کو اور قریب کر دیتا ۔دوسرے مہینے کی تنخواہ 2500 ہو گٸ ۔یک دم جھٹکا سا لگا ۔۔۔اتنی” زیادتی”۔۔۔یہ واقع میں “زیادتی ” ہی تھی ۔کہ اس زیادتی کے ہاتھوں ساری عمر گنوا دی ۔کلرک سے وجہ پوچھی تو اس نے بڑی رغونت سے کہا ہے انکریز ہو گۓ ۔ہمیں ان قوانیں کا کیا پتہ تھا ۔کلرک کے تجربے اور قابلیت کے سامنے دب سے گۓ ۔اور پھر ساری زندگی اس کے تجربے کے سحرسے نہیں نکلے ۔پھر یوں ہوا کہ اس تنخواہ نے زندگی سے بہت ساری رونقیں واقعات حادثات تلخیاں اور شرینیاں چھین لی وقت کی رفتار چھین لی۔گھٹتی عمر کا خوف چھین لیا ۔گزرتی جوانی کی سرگرمیاں چھین لی ۔اور پھر میں اکیلا ہوگیا ۔۔سارے خاندان کو میری تنخواہ سے دلچسپی ہو گٸ ۔۔۔پوچھنے والا پوچھتا ۔۔۔۔۔۔۔کیا تنخواہ نہیں ملی ۔۔۔۔دوسرے نے پوچھا ۔۔۔تنخواہ کتنی ہوٸ ہے ۔۔۔ایک نے کہا۔اتنی تنخواہ لیتے ہو کہاں جاتی ہے۔۔۔ایک درد دل رکھنے والے نے نصیحت کی ۔۔۔۔تنخواہ میں سے کچھ بچا کے رکھو ۔۔۔اسی تنخواہ نے سال کے سارے موسم بھلا دیا ۔حزان کب أٸ کوٸ اندازہ نہیں ۔۔بہار کب أٸ احساس تک نہیں ۔۔۔۔بس تنخواہ کب أٸ ۔۔۔اس سحر نے یہ احساس تک بھلا دیا کہ کمر کب جھکی داڑھی میں کب سفیدی أٸ ۔۔۔۔میں أگے جا کرگریڈ سکیل وغیرہ سےواقف سا ہوگیا ۔اور ساری عمر ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ سالانہ ترقی اور تنخواہوں میں اضافے کو انکریمینٹ کہتے ہیں لیکن ساتھی ایگریمنٹ کہتے رہے.اسپیلنگ کا خدا حافظ اگر لفظ درست بولتے ۔۔محفلوں میں ادارے میں ٹیبل پربس یہی باتیں سننے کو ملتیں ۔۔کہ تنخواہ کی بڑھوتری ۔۔۔ زیادتی ۔۔۔اضافہ ۔۔۔یہ تنخواہ نام کی چیز نے بیڑا عرق کر دیا ۔اس کی بڑھوتری کے ساتھ لوگوں کی توقعات بھی بڑھتی رہیں اور شرح مہینگاٸ بھی ۔۔۔اس دوران حکومتیں خواہ جمہوری ہوں غیر جمہوری ہوں خواہ پسندیدہ ہوں نا پسندیدہ ہو ں خواہ مخالف ہوں موافق ہوں ۔۔۔ان کے دور میں ملک میں حالات کتنے بھی تشویش ناک ہوں ملازمیں کی تنخواہیں اپنی جگہ رہیں سا لانہ اضافہ خواہ5 فیصد ہو یا 50 فیصد ہوتا رہا ۔ملازمیں کے سال بھر کا انتظار کبھی مایوسی میں انجام پزیر نہیں ہوا۔ہر تین سال بعد پے ریوایزڈ ہوتے ۔لیکن ملازمیں کبھی مایوس اور پریشان نہیں ہوۓ ۔کبھی یہ خبریں نہیں أیٸں کہ محکمے پرایویٹایز ہو رہے ہیں یہ خبرکبھی نہیں أٸ کہ ملازمیں کی پنشن ختم کی جا رہی ہے ۔تنخواہ میں نصف کٹوتی ہو رہی ہے ۔۔۔أٸ ایم ایف نے شرط لگا رکھی ہے کہ ملازمیں کو فارع کرو ۔۔۔۔اور اس طرح مسلسل ملازمیں کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کسی نے نہیں کیا ۔ملک میں زلزلے أۓ ۔۔سیلاب أۓ ۔۔خشک سالی أٸ ۔۔سالانہ بجٹ میں مالی خسارہ ہوا ۔۔قرض لینا پڑا ۔مگر ملازمیں مطمین ہی رہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت یہ ملازمیں چلا رہے ہو تے ہیں ۔اور کبھی قربانی دینی ہوتی ہے تو یہ صف اول پہ ہوتے ہیں۔۔۔۔خواہ وہ بیروگریٹ ہوں یا معمولی چپڑاسی ۔۔۔حکومتیں ان سے چلتی ہیں ۔۔سیاست أنی جانی ہے ۔۔۔۔أسمانی بجلی ۔۔۔۔ابھی چمکی پھر اس کے بعد کڑکتی بھی ہے ۔۔۔قرأن نے کہا ۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب بجلی چمکی تو اس روشنی میں أگے بڑھے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو حیران کھڑےرہے ۔۔۔مجھے یہ سیاست ایسی ہی لگتی ہے ۔کتنے أۓ اس کرسی پربراجمان ہوۓ اب ان کا نام و نشان کہیں نہیں ۔لیکن اپنے پیچھے کچھ یادیں چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔میں اب بھی تنخواہ لیتا ہوں لیکن بے سکون ہوں ۔۔۔ کبھی یہ خوف کہ اس میں سے کٹوتی ہوگی کبھی یہ ڈر کہ مجھے فارع کیا جاۓ گا ۔میری طرف سے أٸ ایم ایف کو جاکر کون بتاۓ کہ میرے پاس ایک “رزاق ازلی ” ہے اس نے مجھے پیدا کیا مجھے رزق بھی وہی دے گا ۔میرے رزق کا دروازہ کبھی بند نہ کرے گا ۔تم اورتمہارے چیلے میرےبارے میں جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کریں