Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

دولت بیگ اولڈی

تقدیرہ خان
سن 1980 کی دہائی میں ہم نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاہ چن کا نام سنا تو بہت سے لوگوں بشمول ہمارے سیاستدانوں اور تاریخ دانوں کو بھی پتہ نہ تھا کہ سیاہ چن کہاں ہے۔ اس کی عسکری اور جغرافیائی اہمیت کیا ہے اور آنے والے دور میں اس کی بین الاقوامی اہمیت کیا ہوگی۔ آج ہم سیاہ چن سے تو خوب واقف ہیں چونکہ پاکستان اور بھارت کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں سیاہ چن کی جنگ میں جان دینے والے سپاہیوں اور افسروں کی قبریں، نام کے کتبے اور یادگاریں نہ ہوں۔
بریگیڈیئر سلطان اپنی تصنیف دی اسٹولین وکٹری میں لکھتے ہیں کہ جنگ اور امن میں صرف اتنا فرق ہے کہ جنگ کے دوران بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کو اور امن میں جوان بیٹے اپنے بوڑے والدین کو دفناتے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1947سے لے کر آج تک ہم نے مکمل امن دیکھا ہی نہیں۔ ہماری فوج روز اوّل سے ہی حالت جنگ میں رہی ہے اور وطن کے سپوت مٹی کی حفاظت پر مامور جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

سن 1947 میں لارڈ ماوَنٹ بیٹن، نہرو، مہاراجہ کشمیر، شیخ عبداللہ، باوَنڈری کمیشن میں تعینات ہمارے کچھ افسروں اور سیاستدانوں کی ملی بھگت سے کشمیر بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ نہتے اور بے سروسامان کشمیری مجاہدین نے آزادی کی ناکام جنگ لڑی اور فتح کئے ہوئے ہزاروں مربع میل رقبے سے خود ہی دستبردار ہوگئے ۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان علاقوں سے دستبردار ہوگئی تو بے چارے مجاہدین کے لیے پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

آج ہم شمالی علاقوں بشمول کارگل اور لداخ کا ذکر کرتے ہیں تو ٹائیگر اور آئیبکس فورس کے بہادر، دلیر اور جفا کش کمانڈروں کرنل حسن مرزا اور کیپٹن بابر کی تصوریریں سامنے آجاتی ہیں۔ کاش ہماری قیادت انہیں سونامرگ اور گریز پررک جانے کا حکم نہ دیتی تو آج ہم بے بسی اور مایوسی کی علامت نہ ہوتے۔

ہماری قیادت نے ایسی ہی غلطی 1962ء میں کی اور چین کی رائے سے پہلوتہی کرتے ہوئے نہرو کی چرب زبانی کا شکار ہوگئے۔

1963ء میں اس وقت ہمارا ماتھا ٹھنکا جب امریکہ نے بھارت کو ایک بار پھر شہہ دی اور ریاست ہنزہ کے علاقوں پر کنڑول حاصل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ صدر جنرل ایوب خان اور وزیر داخلہ ذوالفقار علی بھٹو کو چینی وزیراعظم نے پیغام دیا کہ اگر ہم نے بارڈر سٹلمنٹ کا معاہدہ نہ کیا تو بھارت امریکہ اور گریٹ گیم کے ماہر برطانیہ کی مدد سے ریاست ہنزہ کے شمال مشرقی علاقوں، وادی گلوان، اکسائی چن اور دولت بیگ اولڈی پر قبضہ کر لے گا۔ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے لئے مہلک ثابت ہوگا ۔ بھار ت نے اکسائی چن اور گلوان پر قبضہ کر لیا تو وہ ینگ ہاسبنڈ ٹریک کو استعمال کرتے ہوئے دروازہ کے علاقے تک پہنچ جائے گا ۔ درہ دروازہ سے وادی شمشال اور پھر ہنزہ تک رسائی مشکل نہ ہوگی۔ بھارت کے اس شیطانی منصوبے کی کامیابی کی صورت میں چین اور پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہوجانے کی صورت میں چین کو اپنے علاقے کے دفاع کے لیے ایک اور جنگ لڑنا ہوگی۔

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم چین اور پھر بدھ اور اس کے بعد ترک دور میں موجودہ سنکیانگ کا علاقہ مغلستان کہلاتا تھا ۔ شروع کے دور میں تبت سے ماورا النہر تک یہ ایک ہی ملک تھا مگر تیموری ترکوں نے اسے دو حصوں میں تقسیم کرلیا۔ سنکیانگ یعنی مغلستان کا علاقہ یارقند سے لے کر ارمچی اور ترکستان تک تھا جس کا بیشتر حصہ آج تکلہ مکان کے صحرا میں دب چکا ہے ۔ تکلہ مکان کے نیچے قدیم چینی تہذیب سے لے کر مسلم تہذیب تک تین تہذیبیں دفن ہیں۔

قدیمی چینی دور سے لے کر1947 تک خنجراب، سوست اور شمشال تک کا علاقہ چین کا حصہ تھا۔ اسی طرح وادی مسڈاگ سے رامومزراگ اور وادی گلوان تک کا علاقہ ریاست ہنزہ کا حصہ تھا۔ گو کہ اکسائی چن، وادی گلوان اور دولت بیگ اولڈی کے علاقوں پر والئی ہنزہ کی کوئی دسترس نہ تھی مگر بھارت کے ساتھ کسی معاہدے کی صورت میں جغرافیائی اور سیاسی حالات پر اس کا دیرپا اثر ہو سکتا تھا ۔ شمشال،سوست اور مسگرکے علاقے اگرچہ چین کا حصہ تھے مگر چینیوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کھلا چھوڑ رکھا تھا جہان ہنزہ کے چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں اور یاک چراتے تھے۔

خطرے کی گھنٹی بجی تو چین اور پاکستان نے بارڈر سٹلمنٹ معاہدہ کیا جسے 1963 کا معاہدہ شنگھائی بھی کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے وزیر داخلہ ذوالفقار علی بھٹو اور چینی وزیر خارجہ ،مسٹرلی نے دستخط کیئے ۔ معاہدے کی رو سے چین وادی شمشال، سوست اورمسگر کے علاقوں سے دستبردار ہوگیا اور اکسائی چن اور وادی گلوان کے علاقے چین کی عملداری میں دے دئیے گئے ۔ بھارت نے اس معاہدے کو تسلیم نہ کیا اور اسے چین اور پاکستان کی طرف سے بھارتی علاقے میں مداخلت قرار دیا۔

اس معاہدے کے بعد چین نے اکسائی چن اور وادی گلوان پر اپنی پوزیشن مضبوظ کر لی اور کچی سڑکوں کے ذریعے اسے تبت سے ملادیا ۔ ہم چاہتے تو اسی دور میں اکسائی چن اور سیاہ چن کا درمیانی علاقہ بھی چین کے حوالے کر دیتے یا پھر ان علاقوں کے دفاع کا کوئی بندوبست کرتے ۔ اس دور میں یہ کام انتہائی مشکل تھا اور بھارت کا احتجاج بھی زبانی کلامی ہی تھا۔

ابتداَ میں ان علاقوں کی حفاظت ناردرن ایریا سکاوَٹ کی ذمہ داری تھی جن کی تربیت، راشن اور تنخواہوں کا نظام بھی ڈھیلا ڈھالا ہی تھا۔

سرینگر سے لہہ تک کے علاقہ پر نظر ڈالیں توسرینگر سے لہہ چار سو چونتیس میل ہے ۔ سرینگر سے سونامرگ چوراسی میل اور کارگل دوسوتین میل کے فاصلے پر ہے ۔ سرینگر سے دراز ایک سوسنتالیس میل کے فاصلے پر ہے ۔ جہاں دولت بیگ اولڈی سے پہلے بھارت نے اپنا انجینئرنگ کیمپ قائم کر رکھا تھا۔ دراز کے مقام پر بھارتی فوجی چھاوَنی اور ایک برج بٹالین تھی جو شیوک دریا پر عارضی پل تعمیر کرتی تھی۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان آرمی کے کمانڈو میجر طارق محمود نے اس چھاوَنی پر کامیاب چھاپہ مارا اور برج بٹالین کا خاتمہ کردیا ۔ یہی میجر طارق بعد میں بریگیڈئیر ٹی ایم کے نام سے مشہور ہوئے اور مشرقی پاکستان میں بہراب بازار برج پر قبضہ کرکے بھارتی اور مکتی باہنی کا منصوبہ ناکام بنادیا۔

1971ء کی جنگ میں ہم نے کارگل سیکٹر کی طرف توجہ نہ دی اور 1947 کی طرح غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا ۔ اگر ہماری قیادت کھلے دماغ سے کام لیتی تو ہم اس محاذ پر مشرقی پاکستان کا نہ صرف بدلہ لیتے بلکہ مشرقی پاکستان سے چار گنا بڑے رقبے پر قبضہ کرکے بھارت کو گردن سے دبوچ لیتے۔ کام صرف اتنا تھا کہ کرنل مرزا حسن کی قیادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں گلگت بلتستان فورس کے قیام کی دعوت دیتے اور ایک بڑی مسلح مجاہد فورس کو اس علاقے پر قبضہ کرنے کا مشن دے کر ان کی سپلائی لائن بحال رکھتے۔ مگر ہمارا مقدر کہ ہر دور میں ہ میں قیادت کے بحران کا سامنا رہا جو آج بھی ہے۔
سن 1971 میں بھارت نے ہی فائدہ اٹھایا اورضلع لہہ تحصیل نوبراکے انتہائی اہم گاءوں ترتک ، تھانگ ، تھائی کشی ، اور چلنکا پر قبضہ کر لیا ۔ فرنکوں گاؤں سے آگے دریائے شیوک کے مغربی کنارے تک ہماری فوجی چوکیاں قائم ہیں ۔ ترتک کا گاؤں عسکری لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔ آج دولت بیگ اولڈی کی بھارت اور چین لے لئے جواہمیت ہے ویسے ہی ترتک ہمارے لیے اہم تھا ۔ ترتک پر قبضے کی صورت میں بھارت وادی نوبرا، زنسکار اور ہزاروں مربع میل علاقے سے محروم ہوسکتا تھا ۔

سرینگر سے دولت بیگ اولڈی تک بھارت کو اکیس دن کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی اور لداخ سے کارگل تک سات دن کا سفر تھا جو اب محض آٹھ دن کا رہ گیا ہے ۔ بھارت کارگل کی جنگ کے بعد ہماری طرح سو یا نہیں بلکہ علاقے کی اہمیت کے پیش نظر عسکری، سیاسی اور انتظامی امور پر مسلسل کام کرتا رہا ۔ بھارت نے سرینگر سے دولت بیگ اولڈی تک ہائی وے تعمیر کی اور دولت بیگ اولڈی کو ایک مضبوط فوجی چھاوَنی اور سیاہ چن کے لئے آل ویدر ڈپنگ گراوَنڈ میں بدل دیا ۔ بھارت نے دولت بیگ اولڈی سے دم چوک تک ہائی وے تعمیر کی اور کئی کھرب روپیہ اس منصوبے پر خرچ کیا۔

بھارت نے کارگل سے زنسکار تک بھی ہائی وے تعمیر کی اور سینکڑوں رابطہ سڑکیں اور پل تعمیر کیئے ۔ بھارت نے دولت بیگ اولڈی کی مضبوطی اور ہائی وے کے مسلسل استعمال کے لئے دریائے شیوک پر پل کی تعمیر شروع کی اور ساتھ ہی اکسائی چن اور سیاہ چن کے درمیانی علاقہ کو استعمال کرتے ہوئے درہ گلوان جسے قراقرم پاس بھی کہا جاتا ہے پر قابض ہوگیا ۔ درہ گلوان پانچ ہزار پانچ سو پچہترفٹ کی بلندی پر واقع ہے جو چین کے لئے دفاعی اہمیت کا حامل ہے ۔

بھارت کی اس دراندازی کے جواب میں چین نے بھارتیوں کو درہ گلوان پر تو بیٹھے رہنے دیا مگر اپنی فوج کا بڑا حصہ سیاچن اور اکسائی چن کے درمیان تعینات کر دیا ۔

چین کی اس کامیاب کاروائی نے بھارت کا سارا منصوبہ خاک میں ملادیا ۔ دولت بیگ اولڈی کی تعمیرات، چھاوَنی اور دنیا کا بلند ترین رن وے اب چین کے رحم و کرم پر ہے ۔ دولت بیگ اولڈی سے سیاہ چن کا راستہ بھی اب غیر محفوظ ہے اور دریائے شیوک کے مشرقی کناروں پر چینی فوج قابض ہے ۔ بھارت نے اکیس دن کے مسافت کو سات دنوں میں اور چوبیس گھنٹوں کی مسافت کو سات گھنٹوں میں بدل تو لیا مگر اب فائدے کے لئے چین سے بات چیت انتہائی اہم ہے۔

دولت بیگ اولڈی سے اکسائی چن کا بارڈر آٹھ کلومیٹر اور دریائے شیوک پر زیر تعمیر پل گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ موجودہ چینی فوجی ڈپلائے منٹ آٹھ سے چوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ بھارت کی طرف سے کسی بھی کاروائی کی صورت میں چین بھارت کی سیاہ چن کی سپلائی لائن آسانی سے کاٹ سکتا ہے اور دولت بیگ اولڈی اور شیوک پل پر قبضہ کیئے بغیر انہیں چھوٹے ہتھیاروں کی زد میں لاسکتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ دولت بیگ اولڈی تک کا علاقہ ترک دور حکمرانی میں ریاست مغلستان کاحصہ تھا ۔

آخری مسلمان ترک حکمران سلطان محمد سعید خان کشمیر کے دورے سے واپسی پر یارقند جاتے ہوئے بیمار ہوا اور دولت بیگ اولڈی کے مقام پر وفات پاگیا ۔ تاریخ رشیدی کے مطابق سلطان محمد سعید خان 1514سے 1533ء تک سنکیانگ یا مغلستان کا حکمران رہا ۔ مرزا حیدر بیگ دوغلات جو مغل بادشاہ بابر کا داماد تھا کنوا کی لڑائی کے بعد کشمیر چلا آیا اور چک حکمرانوں کا مشیر بن گیا ۔ مرزا حیدر بیگ کی تصنیف تاریخ رشیدی میں لکھا ہے ترکائی مغلوں کی چھٹی نسل نے اسلام قبول کیا اور تیموری ترکوں کے نام سے مشہور ہوئے ۔

وادی گلوان کی تاریخ بھی دلچسپ ہے ۔ گلوان کا مطلب ڈاکو ہے ۔ گلوان کا گاؤں کشمیر کے مشہور ڈاکو کالا یا کاکڑا نے آباد کیا ۔ چکوں کی طرح کاکڑا بہادر ڈاکو تھا جس نے مہاراجہ کشمیر کی خواب گاہ تک لوٹ لی ۔ کاکڑا بعد میں پکڑا گیا اور اسے پھانسی کی سزا ہوگئی ۔ کالا یا کاکڑا کا بیٹا غلام رسول گلوان بارہ سال کی عمر میں کیپٹن ینگ ہاسبنڈ کا ذاتی پورٹر بھرتی ہوا ۔ غلام رسول گلوان نے لہہ سے یارقند اور دروازہ کے قلعے سے ہو کر براستہ شمشال ہنزہ کا سفر کیا ۔ ہنزہ میں مختصر قیام کے بعد وہ ینگ ہاسبنڈ کے ہمراہ چترال چلاگیا اور پھر اسی راستے سے ہوتا ہنزہ سے نگر، سکردو، ہوشے اور ترتک سے واپس لہہ پہنچا ۔

غلام رسول گلوان 1878 میں پیدا ہوا اور 1925میں لہہ کے مقام پر فوت ہوا۔ 1917 میں اسے حکومت کشمیر کی طرف سے ہیڈ ٹھیکیدار بنا دیا گیا جس کے ذمے سارے لداخ کی راشن سپلائی تھی۔

غلام رسول گلوان نے اپنی ہی انگریزی میں سوانح حیات ;34;سرونٹ آف صاحبز لکھی جس کا دیباچہ ینگ ہاسبنڈ نے لکھا ۔

علاقے کی تاریخی اور عسکری اہمیت جاننے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم دیکھتے ہوئے ہمارے شمالی علاقے ایک بار پھر گریٹ گیم کی زد میں ہیں ۔ بھارت سفارتی اور فوجی لحاظ سے مضبوط پوزیشن اختیار کرچکا ہے اور پاکستان کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔ عرب ممالک اور ہمارے پڑوسی ایران اور افغانستان کا جھکاوَ بھی بھار ت کی طرف ہے ۔ ان حالات میں ہ میں ایک مضبوط فوجی اور عسکری قیادت اورمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ ترتک سے وادی نیلم تک کا علاقہ انتہائی اہم اور حساس ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہماری قومی قیادت کیا سوچ رہی ہے اور ہمارا آزاد میڈیا قومی اور عسکری قیادت کے رحجان و میلان کی کس قدر ترجمانی کر رہا ہے ۔ بھارت کی میڈیا وار کا ہم کیسے جواب دے رہے ہیں اور ہمارے دانشور، صحافی اور تاریخ دان اس سلسلے میں کیا خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

You might also like
1 Comment
  1. Noor Pamiri says

    شمشال، خنجراب اور سوست کبھی بھی چین کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ یہ معلومات غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسکم اور یارقند میں بھی ہنزہ زمینیں تھیں، بلکہ ہنزہ کی شاہی خاندان کے کچھ افراد کی موروثی جاگیریں اب بھی تاشقرغن میں موجود ہیں۔

    خنجراب اور سوست صدیوں سے ریاستِ ہنزہ کا حصہ رہے ہیں۔ 1947تک اس علاقے کے چین کے قبضے میں ہونے کی معلومات مکمل لغو ہے۔ یاد رکھیں کہ ہنزہ کی ریاست 1974 تک قائم رہی۔

    میر آف ہنزہ جب سقوط ہنزہ و نگر کے بعد علاقہ چھوڑ کر فرار ہوگیا تو یارقند میں اپنی ہی جاگیر میں رہنے لگا۔ ریاست ہنزہ کی سرحدیں پامیر کے علاقے تغدمباش اور بوزوئے گمبیز تک پھیلی ہوئی تھیں۔

Leave a comment

error: Content is protected!!