عہد فاروقی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
عہد فاروقی میں عدلیہ اور فوج کا معیار بہت بلند تھا اتنا بلند کہ امریکہ اور یورپ کی یو نیورسٹیوں اور تربیتی اداروں میں اس معیار کو نصاب کے طور پر پڑھا یا جاتا ہے سویڈ ن، ناروے اور ڈنمارک میں غریبوں کی کفا لت کا نظام یعنی سوشل سیکیورٹی عمر لاء کے نا م سے مشہور ہے کے تصور کو انہوں نے عہد فاروقی سے مستعار لیا اور اس کا کریڈٹ ہمارے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کو دیدیا
آج مجھے عہد فاروقی کی عدلیہ بھی یاد آرہی ہے ان کا فوجی نظام بھی یاد آرہا ہے اگر موجودہ دور میں اس کا ذکر بے محل ہے تاہم یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم مو قع محل دیکھے بغیر مدینہ کی ریاست کے نمایاں خط و خال سامنے لاتے رہے فارسی کا شاعر کہتا ہے کہ اگر تم سینے کے زخموں کو ہر دم ہرا رکھنا چاہتے ہو تو ایسی پرانی کہانی کو دہراتے رہا کرو چنانچہ آج کی کو شش ایسی ہی کو شش ہے عہد فاروقی کا اہم ترین واقعہ شام اور عراق کے فاتح حضرت خالد بن ولید کی معزولی ہے اس بارے میں دو رائیں آگئی ہیں
پہلی رائے یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق کو اسلامی سلطنت کے دور دراز خطوں سے جو خبریں ملتی تھیں ان میں یہ بات نمایاں تھی کہ حضرت خا لد بن ولید کی سپہ سالاری کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے آگے روم اور فارس کے معرکے درپیش تھے اس نا زک مو قع پر فاروق اعظم نے خا لد بن ولید کو سپہ سالاری کے عہدہ سے معزول کیا تاکہ مسلمانوں کا عقیدہ کسی شخص کی جگہ اللہ تعا لیٰ کی ذات پر پختہ ہو
دوسری رائے یہ ہے کہ عمر فاروق سپہ سالاروں سے فوجی اخراجات کا حساب مانگتے تھے اس معا ملے میں خالد بن ولید تامل سے کام لتیے تھے اخراجا ت کا حساب وقت پر بیت المال کو نہیں بھیجتے تھے وہ اخراجا ت کا حساب دینے سے انکار نہیں کر تے تھے لیکن اُن کی طرف سے سستی اور کا ہلی کا مظا ہرہ ہوتا تھا دوسری طرف خا لد بن ولید کی عظمت اور عمر فاروق پر ان کے اعتماد کا عالم دیکھئے کہ انہوں نے ابو عبید بن جراح اور سعد بن ابی وقاص کی سپہ سالا ری میں اسلام کے سپا ہی کی حیثیت مجا ہدانہ کر دار پوری تن دہی کے ساتھ ادا کیا روم اور فارس کی دو سلطنتوں کو شکست ہوئی عہد فاروقی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ اس عہد کا عدل بھی دنیا بھر میں مشہور ہے
ابن جریر، طبری، مسعودی، یعقوبی اور دیگر مورخین نے تفصیل کے ساتھ عدل فاوقی کے مختلف پہلو وں کا احا طہ کیا ہے مو لا نا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس کا خلا صہ نہایت جا مع الفاظ میں بیا ن کیا ہے جج کا عربی نام قاضی تھا اور قاضیوں کے تقرر میں چار باتوں کا خیال رکھا جاتا تھا پہلی بات یہ تھی کہ جج کے تقرر سے پہلے اُمیدوار کے سامنے پیچیدہ مقدمہ پیش کر کے اس کی قانون دانی، نکتہ سنجی اور جئرت وہمت سے فیصلہ کرنے کی صلا حیت کا عملی امتحا ن لیا جا تاتھا قاضی شریح رحمتہ اللہ علیہ اگر صحابی نہ تھے تابعی تھے مگر نکتہ رس، معا ملہ فہم اور لائق بہت تھے
حضرت عمر فاروق نے ان کو قاضی مقرر کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ان کے سامنے رکھا آپ نے کہا میں نے تاجر سے اس شرط پر گھوڑا خریدا کہ پسند نہ آئے تو واپس کرونگا گھوڑا کسی سوار کو دیا پہلی ہی سواری میں گھوڑے کی ٹانگ زخمی ہوگئی اب گھوڑا واپس کرتے وقت پوری قیمت دینی ہو گی، آدھی قیمت یا کچھ بھی نہیں حضرت شریح نے کہا اگر تاجر کی اجا زت سے سوار کو سواری کے لئے دیا تھا تو کچھ بھی نہیں دینا ہوگا اگر اس کی اجا زت کے بغیر دیا تھا تو پوری قیمت دینی ہوگی
فیصلہ امیرالمو منین کے خلاف تھا مگر ان کو پسند آیا دوسری بات یہ تھی کہ جج مقرر ہونے والا شخص معا شرے کے معزز قبیلے سے تعلق رکھتا ہو جج بننے سے پہلے معا شرے میں اس کی عزت ہو اور لوگ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں تاکہ مسند قضا پر آتے ہی ان کا رعب لوگوں پر قائم ہو تیسری بات یہ تھی کہ جج بننے والا شخص متمول، امیر اور دولت مند ہو معا شرے میں اس کی ثروت مندی مشہور ہوتا کہ کوئی اس کو رشوت دینے کی ہمت نہ کرے چوتھی بات یہ تھی کہ جج بننے والا شخص اسلا می فقہ، شریعت مطہرہ اور اسلا می قوانین کے منا بع کا ما ہر ہو قرآن و حدیث، اجماع اور قیاس کے اصولوں پر اس کو عبور حا صل ہو
ان شرائط پر پورا اتر نے والا جج بنتا تھا چاہے قاضی شریح کی طرح تابعی ہی کیونہ ہو پا کستانی عدلیہ کی حا لیہ تاریخ کے 4ججوں کوا س معیار کی روشنی میں پر کھ کر دیکھنے سے افتخار چوہدری، وقاراحمد سیٹھ، شوکت صدیقی اور فائزعیسیٰ کے کر داروں میں میں قاضی شریح کی مثال نظر آتی ہے عہد فاروقی کے مطا لعے سے آدمی یہ دیکھ کر حیراں رہ جا تا ہے کہ حضرت فاروق اعظم ایک طرف سخت گیر منتظم تھے تو دوسری طرف غریبوں کے ہمدردتھے، شعرو شاعری سے شفف رکتھے تھے اور فنون لطیفہ کے لئے نر م گو شہ رکھتے تھے