بچے کی پرورش میں ماں باپ کا کردار اور ہمارا معاشرہ
سید اولاد الدین شاہ
جب بھی بچہ چلنے پھرنے اور تھوڑا بولنے کے قابل ہوتا ہے ہم اپنے بچے کو دنیائی معاملات سے آگاہی کے لئے خصوصی تربیت کا آغاز کرتے ہیں جہاں اُس کی ذہن سازی کے علاوہ اداکاری اور دنیاداری کے گُر سکھائے جاتے ہیں۔ یہ عملی طور پر اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک انجام پاتا ہے۔ جب بچہ اسکول کے دہلیز میں قدم رکھتا ہے ہم بچے کو لنچ باکس کے ساتھ اپنے استطاعت کے مطابق جیب خرچ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل مادہ پرستی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے بعد بچے میں سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ہم بچے کے ذہن میں ایک چیز ڈالتے ہیں کہ بیٹا آپکو فرسٹ آنا ہے۔ اگر بچہ پڑھائی میں تھوڑا کمزور ہو اُس کو ٹوکتے ہیں اور کلاس میں قابل بچے کا مثال دیتے ہیں اور آگے نکلنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے بہت سے ایسے ہستیاں ہیں جن کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک صرف اچھے نمبر لینا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ اسی طرح ہم اُس کے معصوم دماغ میں حاسد بننے کا سافٹ وئیر انسٹال کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں احساس ذمہ داری کا پیمانہ بھی کچھ عجیب سا ہے کہ بیٹا اپنے استعمال کی چیزیں اپنے کسی دوست کے ساتھ شیر نہیں کرنے کا۔ اگر اُس سے ایسی کوئی غلطی سرزد ہو گئی پھر بچے کی ڈانٹ پکی سمجھو اور ہمارا یہ رویہ بچے کو کنجوسی کے راستے میں ڈالنے کا نقطہ آغاز ہے۔ اصل میں ہمارے لئے جذبات اور احساسات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جو بھی عمل ہم کرتے ہیں اُن کا اثر ہمارے بچوں پر ہوتا ہے۔
بچوں کی ذہن سازی کے سلسلے میں اسکول سے لے کر کالج اور پھر یونیورسٹی تک جو ٹریننگ ملتی ہے۔ اس کے بعد نوجوان پروفشنل بن کر میدان میں اترتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مشیں پوری فٹنگ اور رنگ و روغن کے بعد قابل استعمال حالت میں مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ اور روبوٹک زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ جتنا اچھا روبوٹ اُتنی اچھی کمائی۔ یعنی ہمارے تعلیم کا میعار اچھا پیسہ ہے اور کچھ نہیں۔
اب آتے ہیں ازواجی زندگی کی جانب، ازواجی زندگی کے لئے بھی جیب کا بھرا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ جیب جتنا بھرا ہو اُتنا اچھا رشتہ ورنہ ہم جیسے کنگال کو کوئی منہ نہیں لگاتا، پھر کچھ ہمارے جماتی لوگ نکاح عام نہ ہونے کا رونا روتے ہیں، پھر میرے بھائی لڑکیاں شادی کرنے کو تیار نہیں کیا بےچارے مرد درختوں کے ساتھ نکاح کرے۔ زخموں پر تو نمک پاشی نہ کرو اور یہی رویہ خواتین کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔ عورت بھی اچھا کماتا ہو۔ آسان الفاظ میں ایسا سمجھو اے ٹی ایم مشین ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب یہاں بھی ریٹ لگ گیا۔ پھر یہاں بھی سودا ہو گیا۔
یہ سب کرنے کے باؤجود ہم بچوں سے اچھے کی امید رکھتے ہیں۔ ہم نے خود اپنے بچے کو لالچی، مادہ پرست، کنجوس بنایا ہے۔ کل دیکھ رہا تھا ایک صاحب نے طوطے کو پنجرے سے چھڑانے کے جرم میں آٹھ سال کے بچے کو ہی اُڑا دیا۔ انسانیت کا تقاضہ یہ تھا۔ طوطا پنجرے کے لئے ہے ہی نہیں اس کو آذاد ہونا چا ہئے۔ خیر امیر ذادے نے پیسے جو خرچ کیا تھا۔ پیسے کے نزدیک انسانی جان کی کیا وقعت۔
اگر اس امیر ذادے کے ماں باپ نے اس کی پرورش اے ٹی ایم یا سی ڈی ایم مشیں کے بجائے انسانوں والے کی ہوتی شائد یہ بچی زندہ بھی ہوتی اور کسی اسکول میں پڑھ رہی ہوتی۔ خیر آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں جذبات اور احساسات نہیں ہوتے۔
This fruitful and important article for our social education today. This article need of the time.
Agree with your point of view, parenting should be balanced with deen and duniya. I tell story if Edhi baba to my daughter every night. So she would be sensitive towards needy and take it as social responsibility when grow up.
This is our fault, because we are selfish, and we educate our children on the same manner
Aha bo great