Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

فرنٹ لائن کے نقصانات

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
 
ہرسال 31مئی کا دن قریب آتا ہے تو چترال میں سوئیر نامی فرنٹ لائن گاوں کے عوام کو نماز فجر کے وقت افغان سرحد سے آنے والے روسی ہیلی کاپٹروں کی بمباری یاد آتی ہے۔ اپنوں کی جدائی کا غم تازہ ہوتا ہے اور 35سال پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں یہ 31مئی1985کا اندوہناک واقعہ ہے اس سے پہلے ارندو اور اوسیاک کے علاقوں پرکلسٹر بموں سے حملہ ہوا تھا۔ اُس وقت پتہ لگا کہ اوسیاک سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دریا کے پار پہاڑی ڈھلوان پر گن شپ ہیلی کاپٹر کے ایجاد سے40سال پہلے1901ء میں انگریزوں نے دروش کا فوجی قلعہ ایسی پہاڑی ڈھلوان پر قائم کیا جو افغان سرحد سے آنے والی کسی بھی شیلینگ کی زد سے محفوظ ہے نہ توپ خانہ اس پر گولہ باری کرسکتا ہے نہ ہیلی کاپٹر فضائی غوطہ لگاکر اس کا نشانہ لے سکتا ہے اُس وقت توپ خانہ، گنرز اور اوپیکا تصور موجود تھا برٹش سرکار نے اُس حساب سے قلعے کی تعمیر کے لئے محفوظ جگہ ڈھونڈ لیا بعد میں یہ جگہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کے خلاف بھی دفاعی مورچہ ثابت ہوئی۔
سوئیر گاءوں فوجی قلعے سے مغرب کی سمت میں دریا کے دائیں طرف واقع ہے۔ اوسیاک پُل سے7کلومیٹر کا کچا راستہ اس کو فوجی قلعہ اور دروش کے بڑے قصبے سے ملاتا ہے افغانستان میں امریکہ اور سویت یونین کی جنگ1978 میں شروع ہوئی افغان مہاجرین کی آمد کے بعد چترال اور دروش کے مختلف مقامات پر ان کے لئے مہاجر کیمپ بنائے گئے دروش کا بڑا مہاجر کیمپ دریا کے بائیں طرف کلکاٹک کے مقام پر واقع تھا یہ جگہ بھی فوجی قلعے کی طرح دشمن کی زد سے محفوظ تھی شاید اسی وجہ سے دریا کے اُس پار سوئیر کا ہرابھرا گاوں دشمن کے نشانے پر آیا
اُس دن کی یادوں کو کریدتے ہوئے سماجی کارکن حیدر عباس کہتے ہیں کہ دروش میں جس کے پاس گاڑی تھی وہ زخمیوں کو لانے کے لیے سوئیر پہنچ گیا جس کے پاس گاڑی نہیں تھی وہ خون دینے کے لئے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچ گیا آدھ گھنٹے کے اندر ریسکیواپریشن شروع ہوا۔ حالانکہ دوسری بار حملے کا خطرہ موجود تھا مگر لوگوں نے جان کی پروا نہیں کی۔
سوئیر کی ممتاز شخصیت پروفیسر سید توفیق جان کہتے ہیں کہ قیامت صغریٰ کا منظر مجھے یاد مت دلاو جب 13بے گناہ شہری شہید ہوئے24 ٹی ایچ کیو ہسپتال لے جائے گئے تین زخمیوں کو فرنٹیر ورکس ارگنائزیشن کے فیلڈ ایمبولینس پہنچایا گیا جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد ٹی ایچ کیو ہسپتال ریفر کیا گیا۔
ٹی ایچ کیو ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر فدا عزیز الدین تھے اُنہوں نے پہلے دن27زخمیوں کو داخل کیا۔ زخمیوں اور مرنے والوں میں کوئی مہاجر نہیں تھا۔ بعض لوگوں نے اس کو17مارچ1986کا واقعہ لکھا ہے اور کالکٹک پر بمباری کاذکر کیا ہے دونوں باتیں غلط ہیں۔ ریکارڈ کو درست رکھنا ضروری ہے۔
 
اُس دن کو یاد کرکے ڈاکٹر فداعزیز الدین کہتے ہیں کہ لوگوں کو حوصلہ دینے والوں میں شہزادہ محی الدین، قادر نواز، لفٹننٹ کرنل مرادخان نیئر، مولانا عبدلاحمید بلبل چترال اور سیاسی شخصیت حاجی خورشید علی پیش پیش تھے جونہی سوئیر پر بمباری ہوئی حاجی نظام نے اپنے میڈیسن سٹور کا سارا مال لاکر ہمارے حوالے کیا ایک گھنٹہ بعد زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تو ہسپتال کاعملہ بھی حاضر ہوچکا تھا علاج معالجے کاپورا سسٹم فعال ہوچکا تھا 2جون 1985کو صوبائی گورنر لفٹننٹ جنرل فضل حق نے سوئیر گاءوں اور دروش ہسپتال کا دورہ کیا ایک ہفتہ بعد8جون 1985کوچیف آف آرمی سٹاف اور صدر مملکت جنرل ضیاء الحق نے بمباری سے متاثرہ گاءوں کا دورہ کیا اور ہسپتال میں داخل زخمیوں کی عیادت کی۔
جنرل ضیاء الحق نے اُس وقت سوئیرکے لئے ہائی سکول کی منظوری دی۔ اگرچہ وی آئی پی مہمانوں کو سوئیر کی سڑک اور اوسیاک پُل کی مخدوش حالت پر بھی بریفنگ دی گئی مگر اس بریفنگ کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ 1901 میں تعمیر کیا ہوا جھولا پُل ناکارہ ہوچکا ہے۔ سڑک اس سے بھی زیادہ مخدوش حالت میں ہے۔
فرنٹ لائن پر واقع سوئیر گاوں کے لوگ اُس دن کو یاد کرکے کہتے ہیں کہ فرنٹ لائن کی وجہ سے ہمارے حصے میں لاشیں آئیں، قبریں آئیں اپنوں اور عزیزوں کے معذوری آئی۔ نہ ہمارا پُل تعمیر ہوا، نہ ہماری سڑک بنی،شعیب بن عزیز نے ایسے مواقع کےلئے ایک مصرعہ کہا تھا ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ آج عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ چاہے کوئی گاوں فرنٹ لائن پرہو، ہسپتال ہویا ڈاکٹر ہو فرنٹ لائن ہونے کے بڑے نقصانات ہیں۔
سوئیر گاوں سے افغان سرحد پائنا سون اور اورسون کو راستہ جاتاہے۔ 1901سے اس علاقے میں چترال سکاوٹس کا گشت جاری ہے۔ اس کے باوجود اوسیاک جنجریت پُل اور سوئیر روڈ پر کبھی کام نہیں ہوگا افغان خانہ جنگی کے دوران سرحد کی طرف توپ خانے کو حرکت دینے کی ضرورت پیش آئی مگرراستہ ہی نہیں تھا۔ سوئیر گاوں پر بمباری کے بعد بھی اسطرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ فرنٹ لائن والوں سے صرف قربانی مانگی جاتی ہے ۔ ان کو بنیادی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ غالب نے اسی لئے کہاتھا۔
 
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائینگے ہم،تم کو خبر ہونے تک
 
You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!