سوچئیے گا ضرور
نوائے سُرود
شہزادی کوثر
سوچئیے گا ضرور. عوام الناس کے غیر سنجیدہ رویئے نے حالیہ پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی اموات۔ لاکھوں افراد کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود لوگوں میں ٓاگہی اور شعور کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اسے لوگوں کا بچگانہ رویہ کہیے یا نا عاقبت اندیشی کہ اپنے سامنے موت کے بے رحم پنجوں میں گرفتار ہونے والے افراد کو دیکھ کر بھی احتیاطی تدابیر کو پسِ پشت ڈالنے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں ہمارا یہ روئیہ ملکی معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہمارے ملک کو صرف ایک بیماری سے ہی نہیں لڑنا بلکہ عوام کو بھوک سے بچانا، بیماری سے محفوظ رکھنا، معیشت کے پہیے کو چلائے رکھنا اور لوگوں کے خدشات کا بھی ازالہ کرنا ہے۔
ایسے میں ہمیں بھی ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرنا ہے۔ اگر اپنے گھروں میں رہتے ہوئے سماجی میل جول سے اجتناب کریں گے تو ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کے ساتھ ہمارا بھر پور تعاون ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں ہم بیماری کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے اجتناب اور احتیاطی تدابیر اپنا کر ہی مرض کا مقابلہ اسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارا فرضِاولین ہے کہ ہم اگر دوسرے علاقوں سے سفر کر کے ٓائیں تو قرنطینہ میں دو ہفتہ گزاریں تا کہ ہماری وجہ سے کوئی دوسرا اس مرض کا شکار نہ ہونے پائے۔لیکن ہماری جہالت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ سفر سے انے کے بعد چھپ چھپا کر گھر پہنچتے ہیں تاکہ قرنطینہ میں نہ رہنا پڑے۔
اسلام میں بھی واضح حکم ہے کہ جہاں وبا پھیلی ہو وہاں نہیں جانا چاہئیےاگر پہلے سے ہی اس علاقے میں ہو تو وہاں سے باہر نہ جائیں تاکہ لوگوں کو اس مرض سے بچایا جائے۔ہمیں اس حکم کے بارے میں معلوم نہیں اگر معلوم ہے بھی تو اس کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اللہ اور رسولﷺ بھی احتیاط کا حکم دیتے ہیں تو ماننے سے انکار کیوںْ؟ ہمیں اپنے ارد گرد کی بھی خبر گیری کرتے رہنا چاہئیے ہمارے معاشرے میں ایسے سفید پوش بڑی تعداد میں موجود ہیں جو دستِسوال دراز کرنے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے میں انکی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے ان کی مدد ایسے انداز سے ہونی چایئے کہ ان کی سفید پوشی کا بھرم رہے۔
اس بات کی بہت خوشی ہےکہ ایسے مخیر افراد کی کمی نہیں جو غریب افراد کی مدد کر رہے ہیں اس کارِخیر میں ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔یہ بات بہت اہم ہے کہ مدد کے نام پر چند تھیلیاں تقسیم کرتے ہوئے تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی غیر شریفانہ حرکت سے گریز کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو یعنی مدد کرتے وقت ایک ہاتھ کی خبر دوسرے کو نہ ہو۔۔۔ کریانہ اسٹورز کے مالکان سے اپیل ہے کہ اس ٓازمائش کے وقت غریب عوام پر رحم کریں، چیزوں کی قیمتیں اسمان کو چھو رہی ہیں ،پہلے پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے چیزیں مہنگی تھی مگر اب ٓاپ کے پاس کیا جواب ہے لوگوں کا خون آپ کب تک چوسیں گے؟ ان دنوں نجی اداروں میں کام کرنے والے اور دیہاڑی دار افراد کے پاس روزگار نہیں رہی ان کے گھر میں معصوم بچے بھوک اور بیماری کا شکار ھورھےھیں۔
باھر وبا کا خوف ھے اندر بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا رائے دیجئیے
سوچئیے گا ضرور
ان کے دکھوں کا مداوا اگر اپ سے نہیں ہو سکتا تو ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی وجہ کیوں بن رہے ہیں؟ ٖغریب نوالے کو ترس رہا ہے اپ کو پیسہ کمانے کی فکر دامن گیر ہے ۔یہ ٓازمائش ہم سب پر ٓائی ہوئی ہے اپ کو اس سے استثنا حاصل نہیں ،یاد رکھیں عذاب کا چابک خاموشی سے مارا جاتا ہے اس کے لیے انسان کو ایلٹی میٹم نہیں دیا جاتا لیکن ہماری عقل پر پردہ پڑا ہے کہ اتنابڑا الٹی میٹم ملنے کے باوجوداپنے کرتوتوں سے باز نہیں ٓارہے۔ مہینہ سے کعبتہ اللہ بند ہےروضہ رسول ﷺپر حاضری نہیں دی جا رہی ہمارے مساجد اور امام بارگاہیں بند ہیں جمعہ کی نماز نہیں ہو رہئ کیا یہ اس بات کی علامت نہیں کہ ہمیں سجدوں سے محروم کیا گیا ہے؟ سجدوں کی توفیق ہم سے چھینی جا رہی ہے؟
یہ وقت پیسے کے پیچھے بھاگنے کا نہیں اپنے رب کو منانے کا ہے اس کے حبیبﷺ کا دامن تھامنے کا ہے ۔اجتماعی استغفار کرنے اور گریہ و فریاد کرنے کا ہے۔کیا ہوا اگر مساجد بند ہو گئیں اپنے گھروں میں اہتمام کر کےاپنی انکھوں کو اشکِ ندامت سے تر کر کے، امتِ محمدﷺ کی مدد کر کے سرخرو ہو سکتے ہیں ۔یہ سب ذہنی اور خیالی باتیں نہیں عملی کام ہیں سوچیئے گا ضرور۔
سوچئیے گا ضرور