چترال کی تاجر برادری سراپا فریاد
مکتوب چترال
بشیر حسین آزاد
خیبر پختونخواہ کا ضلع چاہے اپر چترال ہو یا لوئر چترال،موجودہ کورونا وباء کی زد میں آکر گوناگوں مسائل کا شکار ہے اگرچہ مسائل ہر طبقہ زندگی کو درپیش ہیں تاہم کاروباری طبقہ اور تاجر برادری سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کاروباری طبقے کےلئے جن مراعات کا اعلان ہوتا ہے وہ مراعات بھی چترال کی تاجر برادری کو نہیں دی جاتیں۔
صوبائی حکومت کی طرف سے کاروباری طبقے کے لئے جو مراعات دی جارہی ہیں ان میں بھی چترال کے کاروباری طبقے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ایک مہینے سے بازار کوبند کردیا گیا ہے ۔ دکانوں کے کرایے ،بجلی کے بل اور دیگر واجبات اپنی جگہ موجودہیں تاجر ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر بیٹھا ہوا ہے۔ جس کاروبار میں دو یا دوسے زیادہ ملازم کام کرتے ہیں ان کی اُجرت بھی ادا کرنی ہے۔ حکومت نے ان کو دیہاڑی دار کا درجہ نہیں دیا ۔ حالانکہ تاجر خود دیہاڑی دار ہے۔ دن کو کماتا ہے تو شام کوبال بچوں کے لئے کچھ لیکر گھر آجاتا ہے۔ اگر دکان بند ہو،بازار میں لاک ڈاون ہو تو تاجر کا چولہا بھی نہیں جلتا ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم،وزیراعلیٰ یا پارٹی لیڈر کا وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ دورہ ہوتو سارے لیڈربازار کو سجانے اور استقبالی دروازے بنانے کے لئے تاجر برادری کی منت سماجت کرتے ہیں مگر جب بازار بند ہو،بے روزگاری کا دور ہوتو کوئی بھی سیاستدان تاجر برادری کا حال نہیں پوچھتا۔ تین سال پہلے تک چترال بازار کی یونین بہت فعال تھی، بجلی کا مسئلہ ہو یالواری ٹنل کی بات ہو ہر مسئلے پر بازار کی تجار یونین میدان میں آکر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرتی تھی حکومت سے اپیل کرتی تھی بسا اوقات ہڑتال،جلوس اور ریلی نکال کر مسئلے کو حل کرتی تھی اب تجار یونین بھی خاموش ہے، سیاسی نمائندے بھی خاموش ہیں حالانکہ اسلام آباد سے پشاور تک کاروبار بتدریج کھل رہے ہیں۔ حکومت نے کاروباری لوگوں کے مسائل پر غور کیا ہے۔
تاجر برادری کے نمائندوں کو اعتماد میں لیکر مخصوص اوقات کے لئے مخصوص کاروبار کھولنے کی اجازت دی ہے ۔ لیکن چترال بازار گزشتہ ایک مہینے سے مسلسل بند ہے۔ چترال کے عوامی نمائندے بھی خاموش ہیں ،تجار یونین بھی خاموش ہے۔ حکمران جماعت کے لیڈروں کو سانپ سونگ گیا ہے۔ چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ تاجر برادری اس صورت حال میں پسماندہ ضلع کی ابتر معاشی حال کے پیش نظر چار متبادل تجاویز پیش کرتی ہے۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ بازار میں سپرے کی سہولت دیکر صبح سے دوپہر 3بجے تک کاروبار کی اجازت دیدی جائے ۔ اور لاک ڈاونکے پروٹوکول کی پابندی کو لازم قرار دیا جائے۔
دوسری تجویز یہ کہ کاروبار کو دو شعبوں میں تقسیم کرکے ہر شعبے کے لئے3دن مقرر کئے جائیں ۔ 3دن اشیائے خوردنی کی تمام کاروبار کھولا جائے،3 دنوں کے لئے کپڑے، بوٹ، گارمنٹس، فوم اور فرنیچر وغیرہ کے کاروبار کو کھولنے کی اجازت دی جائے۔ دوائی،سبزی،بیکری کی دکانیں لاک ڈاون سے مستشنیٰ ہیں۔ سٹیشنری، ہارڈوئیر کے کاروبار، درزی، مستری اور دیگرکاروبار کو حال ہی میں کھولا گیا ہے۔ کاروباری طبقہ چترال کی ضلعی انتظامیہ اور حکمران جماعت کی لیڈر شپ سے درخواست کرتا ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کے طرز پر چترال میں بھی کاروبارکو بتدریج کھول کر تاجر برادری کو بے روزگاری سے نجات دی جائے یا حکومت تاجروں کے لئے بھی دیہاڑی داروں کی طرح مالی امداد کے پیکیج کی منظوری دے۔ چترال لوئیر معاشی لحاظ سے پسماندہ ضلع ہے۔ رمضان شریف اور عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ اس لئے تاجر برادری کے مسائل پر فوری غور ہونا چاہیئے۔