Site icon Chitral Today

سیاسی یتیمی کا مسلہ

مکوتب چترال

بشیر حسین آزاد

چترال کے پانچ لاکھ کی آبادی کا المیہ ایک نہیں کئی المیے ہیں مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عالمی وباء کورونا اور معاشی بدحالی کساد بازاری کے اس پُراشوب دور میں چترال عوام کا دکھ درد رکھنے والے نمائندوں سے محروم ہے۔ دوسری طرف پانچ لاکھ کی آبادی میں 13سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر کسی ایک جماعت میں بھی عوامی لیڈر نھیں۔
عوامی لیڈر سے مراد وہ لوگ ہیں جو عوام کے جذبات اور احساسات سے حکومت کو بروقت آگاہ کرتے تھے لوگ صوبیدار نصرت الدین کانام لیتے ہیں، عبدالحمید خان دروش کا ذکر کرتے ہیں، حاجی سکندر ولی کانام لیاجاتا ہے۔ شہزادہ محی الدین کا ذکر کیاجاتا ہے۔ عوامی سطح پر سیاسی یتیمی کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔
چترال اگرچہ دوضلعوں میں تقسیم ہوچکا ہے مگر دونوں کو لاوارث قرار دیا جارہا ہے کیونکہ سیاسی قیادت کا فقدان ہے سامنے کوئی لیڈر نہ ہو تو ضلع لامحالہ لاوارث ہوجاتا ہے۔ کورونا اور لاک ڈاون کے دوران عوام کو بُری طرح احساس ہوا ہے کہ کاش کوئی لیڈر ہوتا جوحکومت اور انتظامیہ کے سامنے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے کا فریضہ انجام دیتا۔

عوام اس لاک ڈاون میں ہرروز دیگر اضلاع سے لواری ٹنل تک آکر ذلیل اور خوار ہوتے ہیں وجہ یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کے ساتھ انتظامیہ کے تعلقات خراب ہیں۔صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں چترال کے نمائندوں کی بات کوئی نہیں سُنتا رہی سہی کسر شاہد افریدی کے پروگرام سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورت حال نے پوری کردی یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایم پی اے ہدایت الرحمن اور ضلعی انتظامیہ کے ٹیلیفون جھگڑے میں کوئی عوامی مسئلہ زیر بحث نہیں تھا۔ عوام کی کسی سہولت کا ذکر تک نہ تھا اور چترال کے عوام نے ایم پی اے کے رویے کی حمایت بھی نہیں کی۔ اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ اور عوام کے درمیان خلیج حائل کی گئی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ کی سہولیات فراہم کرے۔ لواری ٹنل پر لوگوں کو روکنے کی جگہ چترال کے اندر قرنطینہ مراکز میں رکھ کر مسافروں کے ٹیسٹ کروائے جائیں اور جن کے ٹیسٹ پازیٹیو آجائیں ان کو آئسولیشن وارڈ میں داخل کرکے باقی مسافروں کو گھر جانے دیا جائے۔
کرونا کا ایک مسلمہ پروٹوکول آچکا ہے اس پروٹوکول پر عمل درآمد میں سب کا مفاد ہے۔عوامی نمائندوں کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ مالی سال2018سے لیکر2020تک کسی سال کا فنڈ چترال کے سڑکوں کو نہیں ملا۔ چترال کی تمام سڑکیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔ سالانہ مرمت کے پیسے بھی نہیں ملے۔ ٹاون کی اندرونی سڑکیں برباد ہوچکی ہیں۔ ایک اور افسوسناک مسئلہ گولین گول کے بجلی گھر کا ہے۔
جولائی2019کے سیلاب میں بجلی گھر کو معمولی نقصان پہنچا 10مہینے گذرگئے ابھی تک بجلی گھر کی مرمت کے لئے فنڈ ریلیز نہیں ہوئے۔اسی طرح گولین گول واٹر سپلائی سکیم کا مسئلہ ہے جولائی 2019کے سیلاب میں اس منصوبے کو بھی معمولی نقصان پہنچا تھا۔ 10مہینے گذرنے کے باوجود پائپ لائن کی مرمت پرکام شروع نہیں ہوا۔ ایک یونین کونسل، ایک ویلیج کونسل اور ایک نیبرہُڈ کونسل کی20ہزار آبادی اس منصوبے سے متاثر ہوئی ہے۔ گولین گول کی دوسکیموں سے فصلیں اور باغات سیراب ہوتی تھیں۔ موری اور برغوزی کے عوام اس وجہ سے متاثر ہیں۔ ایک سکیم سے کوغذی، کجو، راغ، کاری، دنین، جغور اور بکرآباد کے7دیہات کو پینے کا پانی ملتا تھا۔ محرومی کا احساس بڑھتا ہے تو لوگ لامحالہ صوبیدار نصرت الدین اور شہزادہ محی الدین کو یاد کرتے ہیں۔ نواز شریف، بے نظیر اور پرویز مشروف کو یاد کرتے ہیں۔

Exit mobile version