کے پی پبلک سروس کمیشن کا حال
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
بے سہارا لوگوں کے لئے یہ بات ایک سہارا ہے اور مایوسی سے دوچا ر ہونے والوں کے لئے یہ بات اُمید کی کرن ہے کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے دفاتر کا اچانک معائینہ شروع کیا ہے اگر”چراغ تلے اندھیرا ” نہ ہو تو ایک نہ ایک دن اپنے دفتر سے 400گز کے فاصلے پر فورٹ روڈ میں واقع خیبر پختو نخوا پبلک سروس کمیشن کے دفتر کا بھی اچانک معائینہ کرینگے اور چار بنیا دی سوالات پوچھینگے اشتہاراور بھرتی کا درمیانی وقفہ 2سال سے زیادہ کیوں ہوتا ہے؟ او ایم ار کے تحت 800اُمید واروں کا نتیجہ 3ماہ کی تاخیر سے کیوں آتا ہے؟بار بار سوالات غلط ہونے کی رپورٹ پر ٹیسٹوں کو منسوح کر نے کی کیا وجوہات ہیں؟ ایک دفعہ اعلان کردہ نتائج غلط ہونے کی بناء پر دوبارہ ترمیم شدہ نتائج میں پاس کو فیل اور فیل کو پاس کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ وزیر اعلیٰ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ خیبرپختو نخوا پبلک سروس کمیشن کے دفتر میں1930کا کیلنڈر لگا ہواہے سارے کام 1930ء کے کیلنڈر کے مطابق ہوتے ہیں چیرمین سے لیکر ممبر تک اور سکرٹری سے لیکر ڈائیریکٹر ریکروٹمنٹ تک کسی بھی افیسر کو یہ بات معلوم نہیں کہ اس سال 2019ء کا کیلنڈر چل رہا ہے ٹیسٹ ،انٹرویو اور رزلٹ کے جدید طریقے آگئے ہیں ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوے لوے شن ایجنسی کے پاس جدید ترین سسٹم ہے بلوچستان ٹیسٹنگ اتھارٹی اور پنجاب ٹیسٹنگ اتھارٹی نے جدید نظام متعارف کرایا ہے جی ار ای کا مثالی سسٹم موجود ہے۔ گیڈ (جی اے ڈی) ٓ کا بہترین سسٹم متعارف ہوا ہے۔ آرمی کے پاس افیسروں کی بھرتی کے لئے تحریری اور زبانی امتحانات کا بہترین نظام کام کرتا ہے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اپنے پورے سسٹم کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ پنجاب کی حکومت نے افیسروں کی بھرتی کے لئے پبلک سروس کمیشن کی اُور ہالنگ کی ہے مگر خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن اب بھی 1930ء کے کیلنڈر کے مطابق کام کررھا ھے۔ دسمبر 2016ء میں جن آسامیوں کا اشتہار آیا تھا اُن آسامیوں پر اُمید واروں کی بھرتی کا عمل 2020ء میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔ کے پی پبلک سروس کمیشن کے لئے پرچہ مرتب کرنے، چیک کرنے اور کیز مرتب کرنے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے اُ س پار افغانستان واقع ہے، کنٹرول لائن کشمیر کی عارضی سرحد ہے، گوادر کی بندرگاہ پاکستان میں ہے، چاغی کا پہاڑ بلوچستان میں ہے اور تھر جس صحرا کا نام ہے وہ سندھ میں واقع ہے۔ اس کے ڈسے ہوئے ایک امید وار کا کہنا ہے کہ یہ لوگ سائیں قائم علی شاہ سے پرچے بنانے اور کیز فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور سائیں کا مشہو ر قول ہے کہ”زرداری کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دیتا ہوں”۔ ایک دوسرے اُمید وار کا خیال ہے کہ یہ لوگ سارے پرچے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار اسلم رئیسانی کے دربار پر جاکر مرتب کرواتے ہیں جنکا قول ہے کہ “ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی”۔ کوئی استاد، کوئی پروفیسر کوئی ماہر مضمون ایسے پر چے مر تب نہیں کر تا جیساکہ اس کمیشن والوں کے ہاں عام رواج بن گیا ہے۔ ریاضی کا پر چہ دوبار منسوخ کرو اردو کا پر چہ باربار منسوخ کرو نتیجہ کا اعلان کرو پھر اسے منسوخ کرکے دوسرا بتیجہ بناؤ پھر اس کو منسوخ کرکے تیسرا نتیجہ بناؤ فیل کو پاس کرو اور پا س کے سامنے فیل لکھو۔ انگریزی میں جس کو اس کمیشن نے فیل کیا اُس نے چار یونیورسٹیوں کے ٹیسٹ میں ٹاپ پوزیشن حا صل کی۔ کیمسٹری میں جس کو خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن نے سبجیکٹ سپشلسٹ کے لئے ریکمنڈ نہیں کیا اس نے جی ار ای میں 130کے سکور کی حد پا رکرکے فل برائیٹ سکا لر شپ پر دنیا کی نمبر ایک یو نیورسٹی میں ایم ایس کے لئے داخلہ لیا۔ جو اُمید وار تحریری امتحان میں 80فیصد سے زیادہ نمبر لیتا ہے اس کو انٹر ویومیں 55فیصد سے کم نمبر دے کر ’’ناٹ ریکمنڈڈ ‘‘ کے درجے میں پھینک دیا جا تا ہے اکیڈ یمکس میں جس کا سکور سب سے اوپر ہو تا ہے اس کو انٹر ویومیں 40فیصد سے کم نمبر دیکر ’’نا ٹ ر یکومنڈڈ‘ ‘ کی سند سے نوازا جا تاہے اس طرح خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن پر سے نئی نسل کا اعتماد اُٹھ گیا ہے ایک ہی سال ایک ہی اُمید وار پشاور میں پی ایم ایس کا امتحان دیدیتا ہے اسلام اباد میں سی ایس ایس کا امتحان دے دیتا ہے یہاں اسکو فیل کیا جا تا ہے۔ سی ایس ایس میں وہ ٹاپ سکورر بن کر کے پی اے ایس لئے منتخب ہو تاہے اور والٹن اکیڈیمی جوائن کر تا ہے۔ تعلیمی حلقوں میں خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن پر نئی نسل کا اعتماد بحال کرنے کے لئے تین تجا ویز گردش کررہی ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ تھکے ماند ے، ریٹائرڈ لوگوں کو اس کمیشن میں روزگار دینے کی جگہ حا ضر سروس افیسروں کو کمیشن میں لگا یا جائے دوسری تجویز یہ ہے کہ کمیشن کے حکام کو فو جی اداروں اور سول سروس کے دیگر اداروں کے دورے کروائے جائیں ای ٹی ای اے اور پی ٹی ایس یا بی ٹی ایس کے افیسروں کے ذریعے سروس کمیشن کے ماتحت عملے اور بالائی افیسروں کی تر بیت کا انتظام کیا جائے تاکہ وقت کے تقاضوں سے تھوڑی بہت ہم آہنگی پیدا ہو جائے، تیسری تجویز یہ ہے کہ کفایت شعاری کے مسلمہ اصول کے تحت کے پی پبلک سروس کمیشن کو ختم کر کے افیسروں کی بھر تی، اساتذہ اور سکیل 11سے 19تک تمام کیڈر کے سٹاف کی بھرتی کا کام ای ٹی ای اے کے سپرد کیا جائے ہمارا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اگر ایک دو بار کمیشن کے دفتر کا اچا نک معائینہ کیا توآخری آپشن کی نو بت آنے سے پہلے اس ادارے پر نو جوانوں کا اعتماد بحال ہو جائے گا اور یہ وزیر اعلیٰ محمود خان کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔
You represented youth of KP. This commission is den of rotten eggs and outdated people.