Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

سیاحت دبئی کی

شیرولی خان اسیر
 ویسے میں فطری طور پر لمبی چوڑی سیاحت کا شوق نہیں رکھتا البتہ ایسے مقامات دیکھنے کی خواہش رہتی ہے جہاں فطرت کے قریب جانے کا موقع ہو یا ایسی پرانی عمارتیں اور اشیاٴ موجود ہوں جو ماضی کی سیر کراسکیں۔ بعض خطوں کی جدید دور کی مصنوعی چمک دمک مجھے اپنی طرف کھینچنے والی کشش نہیں رکھتی۔ اس لیے مغرب ومشرق کی نئی دنیا دیکھنے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ میرے اپنے وطن میں بہت کچھ موجود ہے جو ہم دیکھ نہیں پائے ہیں۔ میں نے اپنے ملک سے باہر جانے کا آغاز فروری 2016 میں مقامات مقدس یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سفر سے کیا تھا۔ اس سفر نے اللہ کے گھر حاضری دینے اور تواف کعبہ کے شرف سے نوازا اور اس عاصی کو رسول خدا خاتم النبین صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم کے روضہ اقدس اور اہل بیت علیہم سلام اوراصحاب رضوان اللہ اجمعین کی قبور مبارکہ میں دعا کرنے کی مبارک ساعت نصیب ہوئی۔ جس کی مختصر روداد چترال ٹو ڈے کے صفحوں میں شائع ہوچکی تھی۔ روان سال کے دوران بیگم صاحبہ کی گہری خواہش اور بچوں کے اصرار پر اسلامی دنیا کے پیرس متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای جانے کا پروگرام بنا۔22 فروری سال روان کے سہ پہر بذریعہ فلائی دوبیٴ اپنی بیگم کے ہمراہ دبیٴ ایرپورٹ اترا تو ایسا لگا جس طرح ایک پسماندہ دیہاتی کو کسی شہر پہنچنے پر محسوس ہوتا ہے۔ سن انیس سو چھیاسٹھ۔ کا وہ دن یکایک یاد آیا جب میں چترال سے پی ائی اے کے فوکر جہاز میں سوار ہوکر پشاور اترا تھا اور پشاور کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اگرچہ کراچی سے دوبئی اڑان کے دوران جہاز کے اندر مفت پانی بھی نہ ملا تھا اور جس کا میں نے کوئی اچھا تاٴثر نہیں لیا تھا کیونکہ جہاز کے اندر میزبان نام کے لوگ وردیوں میں ملبوس کاروبار کر رہے تھے۔ پاکستان کے اندر سفر کے دوران ہلکی پھلکی ریفرشمنٹ ملا کرتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ ایک امیر ملک کے طیارے کے اندر بہت بڑی خاطر توضع اور مہمان نوازی کا مظاہرہ ہوگا۔ اس لیے صبح نشتہ کرنے میں بھی ذرا کم خوری کا مظاہرہ کیا تھا تاکہ ہوائی سفر کے عربی میزبانوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا سکیں۔ اگر بیگم صاحبہ ناشتہ کرانے پر زور نہ دیتیں تو میں بغیر کھائے پیے جہاز میں آ بیٹھتا اور شاید دوبئی پہنچتے پہنچتے ایر پورٹ کی خوبصورتی اور وسعت کے استحسان کا ہوش بھی ساتھ چھوڑ جاتا۔
دوبئی کے بین الاقوامی جہاز گراونڈ کی کشادگی اور صفائی ستھرائی بیان کرنا مجھ جیسے لکھاری کے بس کی بات نہیں ہے۔ نظر اس کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہی اور قوت استحسان اس کے حسن کی تعریف سے معذورلگی۔ ہر گزرتے منٹ کے وقفے میں ایک جہاز اترتا ہو اور دوسرا پرواز کرتا ہو تو وہ کتنا بڑا ہوگا؟ ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ معلوم اعداد شمار کے مطابق یہ ایر پورٹ 7200 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے تین ٹرمینل ہیں اور دو رن ویز ہیں۔ پچھلے سال نو کروڑ سے زیادہ مسافر یہاں اترے اور یہاں سے سفر کیا۔140فضائی کمپنیوں کے چار لاکھ سے زائد جہاز اسے استعمال کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافروں کی آمدورفت کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا ایرپورٹ ہے اور کل مسافروں کی تعداد کے حساب سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
مجھے ڈر تھا کہ دیہاتی آدمی اس بڑے جہاں گراونڈ میں کہیں بھٹک نہ جاوں۔ شکر اللہ کا اورمہربانی ہوا بازی کے اعلے انتظام اورمنتظمین کا کہ بغیر کسی الجھن کے ہم ایر پورٹ کے ٹرمِنل کی عمارت سے باہر نکل آئے۔ بچوں نے بتایا تھا کہ ہمارا ہوٹل دوبئی ایر پورٹ سے سات کلومیٹر دور ہے۔ جب ٹرمِنل کے باہرقطار میں کھڑی ٹیکسی سے ریٹ کا پوچھا تو اس نے ساٹھ درھم بتایا۔ میں نے فوران دماغ میں حساب لگایا تو اٹھارہ سو پاکستانی بنے۔ میں نے کہا اِٹ اِز ٹو مچ تو وہاں کا منشی جو ہمارے اَڈہ منشیوں کی طرح ہانک لگانے والا میلے کچیلے کپڑوں والا آدمی ہر گز” نہیں تھا بلکہ صاف ستھرے لباس زیب تن ،فرفر اردو، انگریزی اور عربی بولنے والا جوان تھا۔ اس نے رہنمائی کرتے ہوئے باہر سڑک سے ٹیکسی پکڑنے کا مشورہ دیا۔ ان کی یہ ادا پسند آئی کیونکہ ہم بارگیننگ کے عادی لوگ تھے اور جس سے میں بیزار تھا۔ ایک چھوٹا سا بیگ ساتھ تھا۔ اسے گھسیٹتے ہوئے بغیر کسی مشقت کے پانج منٹ میں ہم بڑی سڑک پر آگئے۔ باہر سڑک پر ٹیکسی کم ہی نظر آرہی تھیں۔ ایک اردو بولنے والا ملا تو اس نے پہلے تو کسی کے انتظار کا بہانہ بنایا۔ پھر مشورہ دیا کہ ہم واپس ایر پورٹ جاکر ٹیکسی پکڑیں کیونکہ عام سڑک کے کنارے ٹیکسی رک نہیں سکتی ورنہ دو سو درہم جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ حالانکہ وہ خود وہاں رکا تھا۔ ایک دو منٹ بعد ایک عربی ٹیکسی والا آیا اور جس نے ایک افریکن کے ساتھ ہمیں بھی اٹھالیا۔ افریکن کو اس کے ٹھکانے پہنچاکر 30 درہم میں ہمیں ہوٹل الامارات پہنچا دیا۔ افریکن کو ڈراب کرتے ہوئے ہمیں کافی گمایا بھی۔ مجھے یہ بر لگا کہ اردو بولنے والا جنوبی ایشیائی بندہ بیرون ملک بھی دھوکہ دیہی سے باز نہیں آیا تھا۔
دبئی کی عمارتوں اور سڑکوں کی کشادگی اور صفائی ستھرائی دیکھ کر میں حیران رہ گیا کیونکہ اس سے پہلے میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے ایسی تعمیرات کا نظارہ نہیں کیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہم جدید دوبئی سے ابھی دور تھے اور یہ علاقہ
جہاں ہم عارضی رہائیش رکھنے والے تھے دیرہ کہلاتا تھا اور نیم پرانا تھا۔
 
جاری ہے
 

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!