امریکی امداد کی معطلی
شیرولی خان اسیرؔ آمریکہ کا یہ حاکمانہ انداز سلوک ہمارے لیے نیا نہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دھائیوں سے ہم یہی کچھ دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں۔ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد سے آمریکہ نے پاکستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہے۔ اس سے پہلے ” بغل میں چھری منہ میں رام رام” کی پالیسی پر چلتا رہا۔ ہمیں ان کی چھری نظر نہیں آئی اور رام رام پر خوش رہے اور ممنون رہے۔ تا آنکہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں اپنے” دوستی کا حق” ادا کیا۔ اس کے بعد بھی ہماری دوستی قائم رہی اور ہم وہ سانحہ بھول گئے یا اپنی مجبوری تھی کہ امریکہ دوستی سے دست کش نہ ہو پائے۔ جب جب اس کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہے اس نے چاپلوسی کی پالیسی اختیار کی ہےاور ہم نے اسکی منافقت کو جانتے ہوئے بھی اپنی “وفاداری” قائم رکھی۔ گویا اسے ایک نامہربان باس کی وقتی مہربانی سمجھی اور اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر جب امریکہ کا مطلب پورا ہوا اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ 1971 سے ہم یہی کچھ دیکھتے رہے ہیں۔ ہم بجائے اس کے کہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں اپنے اس خود غرض، نامہربان باس کو منانے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس ناچیز نے اپنے ایک مضمون بعنوان ” سی پی ای سی اور پاک آرمی” میں لکھا تھا کہ ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں چین پاکستان دوستی کھٹکتی رہی ہے۔ اب سی پی ای سی کے اس میگا پرجیکٹ پر کام شروع ہونے کی وجہ سے وہ تلملا اٹھے ہیں۔ وہ اس منصوبے کو ناکام کرنے کی کوشش میں انتہائی حد تک جاسکتے ہیں۔ امریکہ کی افغانستان میں فوجی مداخلت، ہمارے قبائیلی علاقوں میں دہشت گردی سے لے کر کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واردات کا صرف ایک ہی مقصد تھا اور ہے کہ چین آسانی کے ساتھ سمندر تک نہ پہنچ پائے۔ میرے ناقص علم کے مطابق ان سب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جو وہ بھارت کی را کے ذریعے کرا رہا ہے۔ القاعدہ سے لے کر طالبان اور دوسرے دہشت گرد تنظیمات سب کے سب امریکہ کی تخلیق ہیں اور اس کے اشارے پر سرگرم عمل ہیں۔۔ ان کو اسلحہ اور امداد بھی امریکہ دے رہا ہے۔ امریکہ ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اس کھیل سے وہ تین مقاصد حاصل کررہا ہے۔ مسلمانوں کو کمزور کرنا، اپنا سلحہ فرخت کرنا اور چین کی سمندر تک رسائی روکنا۔ اس لیے وہ افغانستان اور پاکستان میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ چونکہ افواج پاکستان نے دہشت گردوں کا صفایا کردیا ہے ۔اس وقت بلوچستان میں وقفے وقفے سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے یہ امریکہ کے ایما پر بھارت اور افغانستان کے خفیہ ادارے کرا رہے ہیں۔ اس موضوع پر ملک کے بڑے بڑے دانشور بہت کچھ لکھتے ر ہے ہیں اور حکومت کو ذرین مشورے دیتے رہے ہیں کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ جب ان کی سنہری تجاویز کو کسی حکمران وقت نے درخور اعتمنا نہیں سمجھا تو ہم جیسے کم علم پسماندہ دیہاتی لوگوں کی رائے کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تاہم بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی اور ذمے دار شہری اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات کو بھی ریکارڈ پرلاؤں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں کی بد دعاؤں سے بچ سکوں۔ مھجے اس بات کا یقین ہے کہ ہماری اولادیں ہمیں لعن طعن کا نشانہ بنائیں گی کہ ہم نے ان کے لیے ایک مقروض غلام ملک چھوڑا جومحض کاغذی طور پر آزاد ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا نے ایک صبر آزما سیاسی جدوجہد کے لیے اپنی زندگیاں دے کرہمیں فرنگیوں اور ہندؤں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا اور سب سے بڑی اسلامی ریاست ہمارے سپرد کیا تھا مگر ان کے جانشینوں نے آمریکہ کی غلامی کی زنجیر ہمارے گلے میں ڈالدی اور ہماری ریاست کے دو ٹکڑے کردیے۔ اب ہم نہ آمریکی غلامی کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکنے کی غیرت رکھتے ہیں اور نہ طاقت۔ ہماری نااہل قیادت کی بدولت ہم ذہنی طور پر بھی مفلوج ہوگئے ہیں۔ عوام کی قیادت کمزور ہو تو عوام کا حوصلہ کمزور پڑجاتا ہے۔ جس طرح کسی ملک کی فوج کی عسکری کارکردگی اس فوج کے سپہ سلار کی صلاحیت سے مشروط ہوتی ہے اسی طرح ملک کی سیاسی قیادت کی صلاحیت عوام کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ آج ہم اپنی نا کامیوں کو ایک دوسرے پر دھرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نام نہاد جمہوریت پسند طبقہ فوجی حکومتوں کو ان سب کی ذمے دار سمجھتا ہے تو افواج پاکستان کے حامی لوگ نااہل سیاسی قیادتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان الزام تراشیوں کا ہمیں نقصان کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔ ہم دنیا کی رفتارکے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے اسی رفتار سے پیچھے کی طرف سرک رہے ہیں۔ اس وقت امریکی صدر کی دھمکی اور امداد کی معطلی کے سامنے یا تو ہمیں ڈھیر ہونا ہے یا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتانا ہے کہ وہ یہ دھمکیاں دینا بند کرے ورنہ ہم اپنے تعلقات ختم کرنے پر مجبور جائیں گے جس سے دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ ہمیں چین اور روس کے ساتھ فوجی معاہدے کرکے اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ ہماری باشعور عوام اس بات کی خواہشمند ہے کہ پاکستان اپنی فوجی اور معاشی ضروریات کے لیے امریکہ اور یوروپی ممالک پر انحصار کم کرنا شروع کردے اور رفتہ رفتہ ان کے تسلط سے مکمل طور پر آزاد ہوجائے۔ ہماری ملکی قیادت یہ تو جانتی ہے کہ جب وہ تھوڑی سی ہمت دکھائے گی تو پاکستانی قوم بہت بڑی غیرت کا مظاہرہ کرے گی اور اپنے وطن کی ناموس کی خاطر ایک متفق غیرتمند قوم ہونے کا عملی مظاہرہ کرے گی۔ ہم سب کو یاد ہے کہ 1998 میں جب نواز حکومت نے ایٹمی دھماکہ کرایا اور اقتصادی پابندی سے نمٹنے کے لیےعوام سے مالی امداد کی اپیل کی تو ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنا عزیزترین متاع زندگی یعنی اپنے زیوارات تک ڈونیٹ کیا۔ وہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس طرح سے جمع شدہ عربوں روپے کہاں کہاں خرچ ہوئے؟ یہ سوال آج بھی جواب کا طالب ہے۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی پاکستان پر برا وقت آیا ہے چاہے وہ قدرتی آفات کی صورت میں تھا یا بیرونی جارحیت کی شکل میں پاکستانیوں نے عدیم المثال یکجہتی اور غیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم غربت برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے البتہ غیرت مند اور عقلمند قیادت کی موجودگی شرط ہے۔ ہماری پاک فوج اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کے جوانوں کی قربانیاں اور ان کے والدیں کی غیرت ایمانی اس بات کی روشن گواہ ہیں۔ پاکستان اس وقت آمریکہ اور مغرب کا یرغمالی ہے۔ ہمیں اپنے عزیز ملک اور اس کے باسیو ں کو آمریکہ اور مغرب کے تسلط سے آزاد کرانا ہوگا۔ یہ اس وقت ممکن ہے کہ آمریکہ سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم ہوں۔ اس وقت ٹرمپ کی دھمکی کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال نہ کرنے کی قسم کھانی ہوگی بلکہ بیک زبان آمریکہ اور اس کے حواریوں کو بتانا ہوگا کہ ٹرمپ حکومت ہوش کے ناخن لے۔ اس سلسلے میں دو تجایز پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آول یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں کی کانفرس بلاکر دوڈوک موقف اختیار کرنے کی راہ ہموار کرے اور خارجہ پالیسی کو درست سمت دے تاکہ آئیندہ کوئی ملک پاکستان کو نیچا دکھانے کی سوچ بھی نہ سکے۔ دوسری تجویز یہ ہے اورجو سب سے بہتر سٹریٹجی ہوگی کہ موجودہ حکومت فارغ ہوجائے اور ملک کی قابل اعتماد سیاسی اور دانشور شخصیات پر مشتمل ایک قومی حکومت چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان کی نگرانی میں تشکیل دی جائے اور نمائیندے نامزدگی کی بنیاد پر سارے ملک اور تمام پارٹیوں سے لیے جائیں جس میں پچاس فیصد ٹیکنوکریٹ شامل ہوں۔ پاک فوج،بیروکریسی،ملکی جامعات اورزندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ اور حاضرسروس ایسے افراد کی کمی نہیں جو انتہائی دیانتدار ہیں اور اپنے ملک اور عوام کے ساتھ بے لوث محبت کرنے والے قابل اعتماد لوگ ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں کے اندر محب وطن لیڈرز بھی ہیں اور محب شکم لگڑبھگڑ بھی۔ دیانتدار اور محب وطن افراد پر مشتمل قومی نمئیندگی ہی ہمارے پیارے ملک و قوم کو اس بحران سے نکال سکتی ہے۔ ایسی قومی حکومت پاکستان کی خارجہ پالیسی تشکیل دے اور ملک کے اندر سے کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے اورقومی اداروں کو سیاست سے آزاد کرانے تک قائم رہے۔ اس کے بعد جنرل الیکشن کے ذریعے درست معنوں میں جمہوری نظام لایا جائے اور اسے ملک چلانے کا موقع دیا جائے۔ تب ہم سینہ ٹھونک کرآمریکہ اور دوسرے بلیک میلرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر بات کرسکتے ہیں۔]]>
If respected Sher Wali Khan sahib really and an honest writer he should mention the irreparable and unforgettable damages of Pak-America relationship during the black era of the then dictator Musharrf. He criticizes a worldwide recognized political system “Democracy” but is silent on dictatorship. According to a source dictator Musharrf issued countless visas to the Black-Water agents during his dictatorship WITHOUT any proper documentation. Sher Wali khan sahib should mention these facts otherwise these are all useless stories.
realistic ideas sir…we need to revisit our foreign policy and before that compromise among the political parties may be introduced to achieve our goal..