Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

بونی دربار سے آگے

(شاملات) جلال الدین شامل

ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان چہارم اسماعیلی مسلمانوں کے اونچاسویں امام ہےجس کا شجرہ ٔ نسب حضرت بی بی فاطمہ ؓ کے ذریعے براہِ راست محمد مصطفیؐ سے جا ملتا ہے۔ اسماعیلیوں کے نزدیک امام ہرزمانے میں اپنی مریدوں کے دینی اور دنیوی رہنمائی کا سرچشمہ ہے جو کہ قرآن کی تعلیمات، حضوراقدس ؐ اورحضرت علی ؑکی تعلیمات کوزمانے کے تقاضوں کے مطابق تعبیرو تشریح کرنے کا مکمل مجاز ہے۔

ان تعلیمات کو زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں موجودہ امام کی تقاریر سے واضح ہیں جو کہ وہ اپنی جماعت، عالمی رہنماؤں اوراداروں سے مخاطب ہوکرمختلف موقعوں پر کی ہے۔ ۹ دسمبر ۲۰۱۷ ء کو بونی میں ڈائمنڈ جوبلی دربار کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آغا خان چہارم نے اپنی مریدوں کو اسلام کےاعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پیروی کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ سچائی پر مبنی زندگی گزارنے اور اسلام کی دوسرے برادریوں کے ساتھ امن و اشتی پر مبنی زندگی گزارنے کا درس دیا۔ آپ نے اپنے مریدوں کو نشہ آور اشیا کے استعمال اور کاروبار نہ کرنے کی تلقین کی۔ یہ درس قرآن کی اس ایت سے لیا گیا ہے جہاں تمام مسلمانوں کو نشہ آور اشیا کے استعمال، کاروبار ترسیل اور ڈیمانڈ کو ممنوع قرار دیتا ہے۔

امت مسلمہ کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ انہوں نے خاتم النبیؐن حضرت محمدؐ کی وفات کے بعد ہی اسلام کے آفاقی تعلیمات کو ہر دور اور ہر نئی ابھرنے والی ضروریات کے لیے مؤثر اور قابلِ عمل کرنے کے کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کی ہے۔ اسلام کے مختلف مکاتبِ فکر اسلام کی نافذالعمل پیغام کو سمجھنے اور اس کو وقت کی ضرورت کے مطابق ڈالنے کے حوالے سے موثر کوششیں کی ہیں۔ سنی مکتبِ فکر کے ائمہ فقہ ٔ امام اعظم، ابوخنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ شروع کے دور کے عظیم مفکرین تھے جنہوں نے اسلام کی تعلیمات کوجدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قابلِ تحسین کام کیا۔ اہل تشیع مکتبہ ٔ فکر کےائمہ اہل بیت میں سے امام باقرؑالعلوم اور امام جعفرالصادق ؑنے اسلام کے شیعہ تناطر میں فلسفہ اور رتشریح و تعبیر کرکے آفاقی اسلامی تعلیمات کو اپنے دور کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔

اسلامی تعلیمات کو وقت کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں کو تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ خلفائے راشیدین کے دور تک پھیل جاتا ہے اور اس کالم میں ان ادوار کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے اس کو کسی اور وقت کے لیے رکھتے ہیں۔

اسلام کے سنی نقطہ ٔ نظر میں اسلام کے آفاقی تعلیمات کو سمجھنے اور اس کو زمانے کے تقاضے کے مطابق ڈالنے کے لیے ائمہ اربعہؒ کی کو ششوں کا ذکر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دائرہ ٔ قانون اور فقہ میں ان ائمہ کی طرف سے وضع کردہ طریقہ کار اور افکار مثلاً اجماع، قیاس، استدلال، استحسان، استصلاح، عرف اور اس ضمن میں اجتہاد جو کہ اسلام کے اوائل کے دور میں موجود نہیں تھے مگر آج اسلامی معاشرے کے اندر موجود ہیں۔ ان تمام کا مقصد صرف اسلامی تعلیمات کو ہر دور، وقت اور ابھرنے والی حالات کے مطابق ڈالنے کے لیے مفکرین، محققین اورعلماء کی کوششیں ہیں۔ بعد کے علماء جو کہ آئمہ ٔ احادیث کے نام سے جانے جاتے ہیں جن میں امام بخاری ؒ ، امام مسلمؒ ، نسائی ؒ، ابوداؤدؒ اور ترمذی ؒاور مفسرین ِ قرآن مثلاً طبری، زمکشاری، بیزداوی، رازی، امام سیطوی وغیرہ نے بھی مختلف علوم پر کام کیا جس کا مقصد تعلیمات اسلامی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈالنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔

علامہ اقبال کے لیکچرز کےمجموعے کو (تجدید فکریات ِاسلام ) بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید دور میں جاوید احمدغامدی جیسے اسکالرز کا بھی خیال یہی ہے کہ تعلیمات ِاسلامی کو وقت کی ضروریات کے مطابق ڈالنے کا کام امہ کی ذمہ داری ہے جو مختلف طبقہ ٔ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔

جدید ملیشیاء کے اندر مہاتیر محمد نے اسی ضرورت کے تحت قرآن حکیم کی دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تشریح و تفسیر کی طرف بھی امت کی توجہ مبذول کی۔ اسلام کی اثنا عشری تفہیم کے مطابق “عقل” کا استعمال اور امام “معصوم” یا اس کے نمائندے سے لیے گئے ہدایات ایک اور صورت ہے جس سے بھی اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اور وقت کے مطابق ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اسلام کی شیعہ اسماعیلی تشریح اور تفہیم کے مطابق اسلامی تعلیمات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈالنے کی ذمہ داری ہر وقت میں زمانے کے زندہ امام کی ذمہ داری ہے۔

اسی وجہ سے اسماعیلی امام اپنے مریدوں کے لیے دینی اوردنیاوی اعتبار سے رہنمائی کا سپریم ذریعہ ہے اور اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اسماعیلی اماموں نے ہر دور میں اور موجودہ انچاسواں امام ہز ہائی نس آغا خان چہارم اپنے مریدوں کی دنیوی اور دینی رہنمائی اور مدد کے لیے آغا خان ڈیویلپمنٹ کا جال بچھا یا ہے اور دینی و روحانی رہنمائی و مدد کے لیے اپنی جماعت کو ہر وقت (اسلام کے اخلاقی نظام سے منسلک رہنے اور بھائی چارے و اخوت کا درس دیتا ہے) روحانی روشنی کی کوشش میں ہر وقت رہنا، یادِ خدا، ذکر و تسبیحات، اپنی دولت میں سے زکواۃ اور “بہتر مستقبل ڈونیشن” کے ذریعے غریبوں کی مدد کرنا، لوگوں کے لیے علم اور وقت کا بلاعوض نذرانہ پیش کرنا وغیرہ وہ ہدایات ہیں جو کہ ہز ہائی نس اپنی جماعت کی روحانی ترقی کے لیے اور اسلامی تعلیمات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لیے بحثیت امام سر انجام دے رہے ہیں۔

روحانی روشنی کی انفرادی جستجو اسماعیلی طریقے کا بہت اہم عنصر ہے۔ اس ضمن میں اسماعیلی طریقے کے اندر بیت الخیال کا طریقہ جس میں آدھی رات کو عبادت و تسبیحات ادا کیے جاتے ہیں۔

بیت الخیال کی عبادت کا تصور براہِ راست طور پر قرآن حکیم کی سورۂ مزمل اور سورہ انشراح سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اسماعیلی امام اور اسماعیلی جماعت کے لیے دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اس لیے اسماعیلی امام اور اسماعیلی جماعت کے نزدیک دنیاو ی اور روحانی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے اسماعیلی امام کی ذمہ داری دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے اپنے مریدوں کو مدد اور رہنمائی فراہم کرنا ہے۔۔ میرے فہم کے مطابق جو کہ یقیناً آغا خان چہارم کی تعلیمات کا ثمر ہے۔ اسلام کے تمام مکتبہ ٔ فکر (چاہے سنی ،شیعہ اثنا عشری، شیعہ اسماعیلی، وغیرہ) جو کہ اپنی اپنی فکر، نظریات، سمجھ کے مطابق اسلام کی عظیم تعلیمات کو سمجھنے اور وقت کی ضرورت کے مطابق ڈالنے کی کوشش ۱۴ سو سالوں سے کرتے آرہے ہیں سب درست ہیں اور اپنی پیرو کاروں کے لیے صحیح ہیں اور اہمیت رکھتی ہیں ۔یہ تمام مکتبہ ٔ فکر قابلِ عزت اور معتبر ہیں۔ تمام مکتبہ ٔ فکر کے لوگ دوسرے طبقہ ٔ فکر کے لوگوں کی عزت کرنی چاہیئے ۔اس ضمن میں سر زمین چترال پر تو خا ص رحمتِ خداوندی ہے جہاں پر لوگ ایک دوسرے کے خیالات، کمیونیٹز اور مذہبی جذبات کی قابلِ رشک حد تک خیال رکھتے ہیں اور عزت دیتے ہیں۔

یہ رحجان حالیہ دنوں میں چترال ،خاص کر بونی میں ہزہائی نس دی آغا خان کی تشریف آوری کے موقع پر دیکھنے کو ملا، سنی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اسماعیلی کمیونٹی کیساتھ دربار کی تیاریوں میں ہر قسم کی مادی، جذباتی اور اخلاقی مدد فراہم کی۔یہ باہمی اخوت ،محبت اور خیال داری ۹ دسمبر ۲۰۱۷ کو بونی دربار میں اپنے عروج کو پہنچا ۔جب اسماعیلی ذائرین اپنے امام کے انتظا ر میں پنڈال میں موجود تھے ۔جبکہ بونی کی سنی کمیونٹی کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں دیدار گاہ سے منسلک ڈھلوانوں پر بیٹھ کر کئی گھنٹوں تک معزز مہمان کا انتظار کرتے رہے۔اسماعیلی کمیونٹی کے لوگ اپنی سنی بھائیوں کے دربار کے حوالے سے مدد پر خوش اور انتہائی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مشکور بھی ہیں اور کئی موقعوں پر اس خوشی کا اظہار بھی کیا گیا۔ خاص کر دربار کے ۱۴ گھنٹے کی طویل پروگرام میں کئی دفعہ اپنے سنی بھائیوں کےلئے اجتماعی دعائیں کیں اور ان کے حسن سلوک کے معترف بھی رہے ۔۲۱ ویں صدی کے عالمگیری معاشرے میں جہان سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں میں اس طرح کی اخوت اور ہم آہنگی اور خیال داری ہی اصل اسلامی تعلیمات کو دور حاضر کے مطابق ڈالنے کی کوششوں میں سے ایک نہایت موثر کوشش سمجھا جاسکتا ہے۔ میری اپنی زندگی میں پہلی بار میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ اسماعیلی کمیونٹی میں سنی کمیونیٹی کے لیے انتہائی گہری محبت،خیال دار ی اور نیک جذبات دیکھنے کو ملے ہیں اور یقیناً سنی کمیونٹی نے اسماعیلیوں کے لیے اپنی محبت اور خیال داری کا اظہار عملی طور پر دیدار اور دربار کی تیاریوں کے دوران کھل کر کیا۔ رب العزت سے دعا ہے کہ دونوں کمیونیٹیز کے درمیا ن لوگوں کا اسی طرح بین المسالک ہم آہنگی،محبت اور مفاہمت کا انداز برقرار رہے۔ دونوں کمیونیٹیز کو اس امر پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال اس ہم آہنگی پر مبنی تعلقات کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔دونوں کمیونیٹیز کے اندر نا سمجھ، انتشا رپسند، لوگوں کی موجودگی کا احساس ہم سب کو ہے۔

ان کی غیر ضروری سوشل میڈیا پر آنا تعلقات کو خراب کرسکتا ہے۔ چنانچہ ایسے کمنٹس اور پوسٹ کو کسی بھی طریقے سے روکا جائے یا ایسے لوگوں کو یکسر نظر انداز کرنا چاہیئے۔ نو دسمبر کو بونی دربار میں ہزہائینس کا خطاب بھی اپنے مریدوں کے لیے دینی اور دنیا وی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتی ہے دوسرے امور کے ساتھ ساتھ ہزہائینس کے فرمان کا ایک اہم پہلو بین المذہبی ہم آہنگی اور دوسری برادریوں کے ساتھ بہترین تعلقات کے حوالے سے تھا ۔انہوں نے اپنے مریدوں سے کہا کہ جن لوگوں کے درمیان وہ زندگی گزاررہے ہیں ان کے ساتھ تعلقات انتہائی مثبت اور خیر سگالی پر مبنی ہونی چاہیے۔ ہز ہائی نس نے کئی موقعوں پر اپنی جماعت کو دوسری کمیونٹیز کے ساتھ اچھےتعلقات بنانے پر زور دیا ہے۔ ایک مرتبہ اپنی جماعت سے خطاب کرتے ہوئے ان کو انسانیت کی قدر مذہب سے بالاتر ہوکر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ لوگ یا تو اسماعیلی مذہب میں تمہارے بہن بھائی ہوسکتے ہیں یا اسلام کے رشتے کی وجہ سے تمہارے بہن بھائی ہوسکتے ہیں یا انسانیت کے رشتے کی وجہ سے تمہارے بہن بھائی ہوسکتے ہیں۔ اسی تناظر میں ہزہائی نس کا اپنی جماعت کے لیے وژن یہ ہے کہ ان کے تعلقات ان برادریوں کے ساتھ انتہائی موثر اور احترام کی بنیاد پر ہونا چاہیے جن کے ساتھ وہ رہ رہے ہیںl۔ اس لیے یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ چترال کے اندر سنی اور اسماعیلی کمیونٹی کے درمیان اچھے تعلقات کی زیادہ تر ذمہ داری اسماعیلیوں اور ان کے اداروں پر ہے کیونکہ یہ ان کے امام کا فرمان ہے کہ وہ دوسرے برادریوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرسکیں۔ چترال کی دونوں کمیونیٹیز اصل میں ایک چترالی قوم بھی ہے۔ ان کا دکھ درد، خوشی غمی، مشکلات اور وسائل سب ایک ہیں ۔اس بنا پر اگر یہ دونوں طبقے اقبال کے اس شعر پر عمل کریں گےتو جنت نظیر چترال پر اللہ کی عنایتیں برستی رہیں گی۔ منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک کیا اچھی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

نوٹ۔ یہ آرٹیکل ۱۰ نومبر کو انگلش آن لائن میں شائع ہوا تھا۔ قارئین کی اصرار پر اس کا اردو ترجمہ کچھ اضافی سطور کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں تمام باتیں میری اپنی ہیں، اور کسی بھی کمیونٹی، مسلک، فقہ یا ادارے کی نمائندگی نہیں ہے۔

You might also like
2 Comments
  1. Mr.baig says

    Very very nice. keep it up and stay blessed.

  2. Muhammad Karim Khan says

    Good writeup yar may Almighty give you courage to write more such balanced and unbiased columns
    thanks.

Leave a Reply

error: Content is protected!!