چترال کا پہلا یتیم خانہ
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
کیلئے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ کرے کوئی یتیم نہ ہو، اس کا باپ اور ماں سلامت رہیں۔ یتیم کو ن ہے؟ یتیم ہر ایسے بچے کو کہتے ہیں جس کا والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائے، اسی طرح جس بچے اور بچی کے والد اور والدہ دونوں اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائے انہیں بھی ’’یتیم الابوین‘‘ کہا جاتا ہے۔
یقیناًیہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے معاشرے کے پسے ہوئے محروم لوگوں کو ہمیشہ اوپر اٹھایا ہے۔ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔ ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کوچومتا ہے، گلے سے لگاتا ہے اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے صبح وشام محنت کرتا ہے، گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے، وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کے ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے، بچے توتلی زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں، کبھی شکایت لگاتے ہیں، والد بچوں کے باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے، خوش ہوتا ہے، اسی کا نام زندگی ہے۔ اسی کے برعکس اگر یتیم بچوں کو دیکھا جائے تو یہ فطری چیزیں محبت پیار معاشرے میں اسے نہیں ملتا ہے۔ ان یتیم معصوم بچوں کے جذبات و احساسات کو کیسے کچلا جاتا ہے۔
وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔ سکول جاتے بچوں کو جب وہ دیکھتے ہیں ان کے اندر کیسی قیامت گزر جاتی ہے، اس کا تصور کریں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم کو سوچنا چاہئے ہمارے بچے بھی کل یتیم ہو سکتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑانی چاہئے، ہم ایسے نظر دوڑا کے دیکھیں گے تو ہمیں اپنے اردگرد بچے بد ترین حال میں نظر آئیں گے۔ محبوب ظفر صاحب نے کیا خوب منظر نگاری کی ہے۔ نگاہ نہ پڑنے پائے یتیم بچوں کی ذرا چھپا کے کھلونے دکان میں رکھنا یتیم ہونا کوئی کمزوری ، عاریاََ محتاجی کی علامت نہیں ہے۔ یتیم بچہ معاشرے میں کسی بھی لحاظ سے کسی سائبان والے بچے سے کم نہیں ہوتا۔ اسلام میں یتامی کے حقوق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث میں بڑی شد و مد کے ساتھ ذکر آیا ہے ۔ اسلامی معاشرہ بے سہارا اور کمزور طبقے کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے ۔ یتیموں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان کے قیام و طعام کا انتظام میں سبقت لے جانے کو اسلام نے کافی پسند کیا ہے ۔ جو یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اس کو اللہ اور اللہ کے رسول ؐ نے بہت پسند کیا ہے ، اور قیامت کے دن اس کے لئے اعزاز و اکرام و انعام کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی بہت سے باصلاحیت بچے یتیم اور بے سہارا ہوجانے اور مناسب تعلیم اور بنیادی ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف خود مختلف ذہنی و دیگر مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ معاشرے کیلئے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس صورت حال کے پیش نظر ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ ایسے یتیم اور بے سہارا بچوں کے لئے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جس میں تعلیم، رہائش، کھانا، لباس اور روزانہ جیب خرچ کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دی جائے تو یہ بچے معاشرے کے مفید شہری بن کر قوم و ملت کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اس فکر وسوچ کو فوری طور پر عملی شکل میں ڈھالنا اس وقت نا گزیر ہوگیا۔
جب ان یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس المناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوان عالم دین مولانا عماد الدین صاحب اپنے درد دل رکھنے والے دوستوں کے تعاون سے ان یتیم اور بے سہارا بچو ں کو سہارا فراہم کرنے کیلئے عظیم الشان ادارہ ’’ محافظ بیت الاطفال‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کے مقاصد میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان بچوں کو ایسی معیاری تعلیم و تربیت دی جائے کہ یہ وہ جوان ہو کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو او ر ان کے ذہن میں یہ بات نہ رہے چونکہ وہ یتیم تھے اسلئے ویسی تعلیم وتربیت نہ مل سکی جو عام بچوں کو ملتی رہی ہے۔ ’’ محافظ بیت الاطفال‘‘ میں اس وقت 5سال سے لیکر 15سال تک کے بچے رہائش پذیر ہیں ۔ صبح بچے نماز کے وقت اٹھتے ہیں۔ باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد ناشتہ اور اسکول کی تیاری کا مرحلہ ہوتا ہے، بعد ازاں بچے اسکول جاتے ہیں۔ یتیم بچے چترال کے بہترین پرائیوٹ سکولوں میں پڑھنے جاتے ہیں ۔ جہاں عام بچوں سے بھی ان کا میل جول ہوتا ہے۔ ہر بچے کو دوسرے روز کپڑے تبدیل کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر بچے کو تولیہ، صابن، ٹوٹھ پیسٹ ، کنگھی ، تیل اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء فراہم کی جاتی ہے۔
اسکول سے واپسی پر بچوں کیلئے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے جس کے لئے باقاعدہ ایک باورچی تعین ہے ۔ دوپہر کھانے کے بعد ادارہ میں مدرسہ کا کلاس لگتا ہے جو باقاعدہ قاری صاحب تعین ہے ۔ اس کے بعد سکول ٹیوشن کیلئے ایک ٹیچر آتی ہے اور سکول کے اسباق پڑھاتے ہیں ۔ عصر کے بعد بچے کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں ۔ دن بھر کے اوقات میں پانچ باجماعت نمازیں پڑھائی جاتی ہے۔ ادارہ میں بچوں کیلئے کھانے کا مینیو بنایا گیا ہے جس کے مطابق بچوں کو روزانہ مختلف اور متوازن غذا دی جاتی ہے۔ مولانا عماد الدین صاحب گزشتہ برس
A wonderful step towards the better life of our orphans….Keep it up sir.
We are grateful to Imaduddin Sahib’s sincere initiative for betterment of our orphans.
Behtareen our aala kam. Phone no ? A/c no? Address ?