تحصیل لٹکوہ کی سیاست
تین یونین کونسلز پرمشتمل وادی لٹکوہ شروع ہی سے چترال کی سیاست میں مرکزی اہمیت کا حامل رہا ہے۔گو کہ چترال ٹائون ، دورش اور ارندو کی آبادی اس وادی سے کئی گنا زیادہ ہے مگر لٹکوہ کے باسیوں کی اتفاق، باہمی ہم آہنگی ان تین تحصیلوں کے پاس واضح اکثریت ہونے کے باوجود ان پر حاوی رہتی ہےاور سیاسی تجزیہ کار یوں کہتے نظر آتے ہیں اگر کوئی امیدوار لٹکوہ کو نظر انداز کرے گا تو اس کی ہار یقینی تصور کی جائےگی اور یہی وجہ ہے کہ اکثر امیدوار لٹکوہ کواپنے لئے ٹارگیٹ بنا کر انتخابی پلان تشکیل دیتے ہیں۔
شہزادہ محی الدین کے تین دہائیوں پرمشتمل حکومت میں کلیدی کردار لٹکوہ کو قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ جب بھی الیکشن ہوئے شہزادہ محی الدین یہاں سے بھاری مینڈیٹ لیکر اگے رہے۔ اس کے بعد گذشتہ دوانتخابات یعنی 2008 ء اور2013 میں صوبائی اسمبلی کے نشست سے سلیم خان اور قومی اسمبلی سے پھر شہزادہ محی الدین بھاری اکثریت لیکر سامنے آئے۔ گو کہ 2013ء کے لیکشن میں شہزادہ محی الدین کا بیٹا افتخارالدین سامنے آیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ لٹکوہ سے ملنے والے ووٹ شہزادہ محی الدین کے شخصی ووٹ ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
لٹکوہ کے عوام شخصیت پرستی کے ساتھ ساتھ خدمت کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرتے اور خدمت گار کے ساتھ کبھی بھی نمک حرامی نہیں کرتے اوردرحقیقت یہ ووٹ سابق صدر پاکستان جناب پرویز مشرف کے ووٹ تھے جن کی خدمات اور احسانات کےجواب میں کاسٹ کئے گئے تھے۔ چونکہ لٹکوہ اسماعیلی اکثریتی تصیل ہے اور جب سلیم خان دوسری بار کامیاب ہوا تو مخالفیں نے لٹکوہ وادی پر یہ الزام عائد کئے کہ لٹکوہ کے لوگ فرقہ واریت کے تحت ووٹ دیتے ہیں مگر زندہ دلان لٹکوہ 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں لٹکوہ کے انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا سنی مسلک کے امیدوار کوضلع کونسل کی نشست پر کامیاب کرکے اُن بے بنیاد الزامات کا منہ توڑ جواب دیئے جو2013ء کےبعدلگائے گئے تھے۔اس کے بعد یہ بات کنفرم ہوئی کہ اہلیان لٹکوہ خدمت کو سامنے رکھ کر ووٹ دیتے ہیں نہ کہ مسلک کو!!!۔۔۔۔البتہ شخصیت پرستی کسی حد تک موجود ہے جس کا مسلک کے ساتھ دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں ہے جس کی واضح مثال شہزادہ محی الدین ہیں۔ اس بار صورحال کافی مختلف ہے۔ کیونکہ لٹکوہ میں تین سے چار امیدوار میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ٹکٹ کے لئے ہاتھ پائون مار رہے ہیں ۔
ٹکٹ کس کےحصے میں آتا ہے اور کون آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر مرکز میں بیٹھے پارٹی قائدیں پارٹی ورکرکی وفاداری اورمخلصیت کو اہمیت دینے کے بجائے ان لوگوں کو ترجیح دینے لگے ہیں جن کے پاس وافر مقدار میں زر موجود ہے اورٹکٹ بھی ان لوگوں کو دینے کا پروگرام ہے جو الیکشن کے سارے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کو یہ یقین ہونے لگا ہے کہ نظریاتی ووٹ ملے یا نہ ملے مگرزرخرید ووٹ ضرور ملیں گے۔کیونکہ یہاں نظریہ صرف ضروت کے وقت یاد رہتی ہے اورشخصی املاک کے تحفظ نے نظریے کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔ مگر اس بار صورت حال کافی مختلف ہے،کیونکہ پارٹی ورکرز صرف اور صرف ان لوگوں کے ساتھ ذہنی وابستگی رکھتے ہیں جو خود بطور ورکرز کام کر چکے ہوں۔ اوپر سے نازل ہونے والے امیدواروں کے لئے اس بار خاصا پریشانی کا سامناکرنا پڑے گا۔
مگراس بار ہمیں یقین ہے کہ لٹکوہ کے عوام ہر طرح کے صورت حال کو بخوبی جانچ کرہی ووٹ کاسٹ کریں گے۔ یہ ہم سب کو معلوم ہونا چائیے کہ ہمارا ایک غلط اور ناحق ووٹ سے کوئی بھی ظالم اور نااہل شخص اقتدار میں آسکتا ہے اور ہمارے ہی لئے باعث زحمت بن کر ہمارے حققو ق کو پائون تلے روندتا رہے گا۔ ہمیں بطورذمہ دارشہری، بھر پورذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ کیونکہ حکمرانی اگرایک آدمی کے سپرد کرتے ہیں مگرہم میں سے ہر فرد ملت کے مقدرکا ستارہ بھی بن سکتا ہے۔
Agree Sher Jahan Sahil. Salim Khan must be out this time from the politics as we cannot afford to vote to him thrice. There must be a new candidate now.