Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

اے۔کے۔ڈی۔این اورچترال

شیر جہان ساحل

 نصیحت ایک فن ہے جس میں  ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے بارے میں بات کی جاتی ہے اورنصیحت کرنے والے اکثر بڑے دانا اورعقلمند تصور کئِے جاتے ہیں، معاشرے میں ان کا اونچا مقام بھی ہوتا ہے اور لوگ انہی سے مشورہ لیکر اپنا لائف اسٹائل بناتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بطور پیشہ بھی اپنایا جاتا ہےمگر حقیقت اس کے برعکس ہے،

ایک جرمن فلاسفر لکھتے ہیں “کہ نصیحت ایک بےکار فعل ہے کیونکہ عقلمندوں کو اس کی ضرورت نہیں اور بے وقوف اس پر عمل نہیں کرتے”۔ اخوت، مساوات، میانہ روی، عدل وانصاف، بھائی چارہ، یہ وہ اصول ہیں جسکا درس لیکر پیغمبراسلامؐ اس دنیا میں تشریف لائےتھے مگرآج کے اسلامی معاشروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں انہی اصولوں کا فقدان نظر آتا ہے اور حالت یہ ہے کہ ایک مغربی مفکر کو یوں کہنا پڑا “دنیا کا سب اچھا مذہب اسلام اور سب سے خراب قوم مسلمان ہیں” جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دنیا کا ایک عظیم مذہب ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہے اور انسان کی خدمت کو دنیا میں سب سے بہترین اور افضل عمل قرار دیتی ہے۔  قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انسان کی بھلائی کے لئے کام کرنا سب سے افضل اور نیک عمل ہے “اور تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ اچھا ہو”۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب مصیبت میں ہوتا ہے تو انسان ہی اس کے کام آتاہے۔ کیونکہ درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے انسان کو!  انسان جب سے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا  ہے تو اسے گناگون مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، مگر تب سے لیکر اب تک وہی انسان ان مسائل کا مقابلہ کرتے چلا آرہا ہے۔اور آئے روز اسے چلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دور حاضر میں دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے گو کہ ٹیکنالوجی کی بدولت انسان کے بہت سے مسائل آسان تو ہوئے مگر نئے مسائل کا پیدا ہونا بھی جاری ہے۔ دنیا بھر میں نامور شخصیات سماجی کاموں کا جال بچھا چکے ہیں اور معاشرتی چلینجز کا مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان شخصیات میں سے ایک نام پرنس کریم آغاخان کا بھی ہے جو تیسری دنیا کے غریب ملکوں میں مختلف سرگرمیوں کے ذرئعے معاشرتی اصلاح لانے میں مصروف عمل ہیں۔اِن کا نیٹ ورک آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے جانا جاتا ہے،

یہ فن تعمیرات، ثقافت، تعلیم، صحت، زراعت، بینکنگ، سوشل ویلفئر سمیت ان تمام زاویون  میں کام کرتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی اصلاح سے ہوتا ہے۔   اے۔کے۔ڈی۔این افریقہ اور ایشیا کے اسلامی ملکوں میں ایسے ایسے خدمات سرانجام دیئے ہیں جن کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہےمگرچترال میں ابتک یہ سوالیہ نشان بن کر رہ گیاہے۔ جی ہان سوالیہ ضرور ہے! اے۔کے۔ڈی۔این سن ساٹھ کی دہائی سے پاکستان میں اپنے سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔ کوئی بھی شخص اے۔کے۔ڈی۔این کے ویژن کو چلینج نہیں کرسکتا کیونکہ آغاخان کا ویژن بین الاقوامی طور پرآزمودہ ہےاور مانا جاتا ہے۔ مگرچترال کے اندارچند خاندانوں کی مفاد پرستی کی چپقلش اور رسہ کشی کی وجہ سے یہ ویژن کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ اپنے ابتدائی ایّام میں کچھ کام ضرور ہوئے تھے، جوکسی حد تک قابل ستائش بھی تھے۔مگر دوسرے علاقوں سےاگرموازنہ کیا جائے تو آٹے میں نمک کے برابر تصور کیا جائے گا۔

اے۔کے۔ڈی۔این آج کل چترال کے اندارچند خاندانوں کو مالی و سماجی تسکین مہیا کرتی چلی آرہی ہے اوراب یوں لگنے لگا ہےکہ ان اداروں کا مقصد صرف اور صرف چند افراد یا خاندانوں کی فلاح و بہبود ہے نہ کہ علاقے کے دیگر عوام کی سماجی، فلاحی، معاشی بہتری!!! ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان اداروں میں قابض لوگ اپنے خاندانی اجارہداری کو برقرار رکھنے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار ستعمال کرتے ہیں اور یہ بات طئے ہے کہ یہ لوگ اتنے انا پرست اور مفاد پرست بن چکے ہیں کہ اپنے املاک اور مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ ان کی حرکتوں کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو چترال میں مسلکی بنیادوں پر نفرت پھلانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ لوگ کارکردگی سے محروم ہیں اوربے چارہ اسماعیلیوں کی شفقت/ہمدردی حاصل کرنے لئے مذہبیانتشارتک پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آغاخان یونیورسٹی چترال کے لئے چترال میں زمینخریدنا اوراس زمین پر یونیورسٹی تعمیرنہ ہونا سب ان کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھا۔ یہ لوگ مافیاء بن چکے ہیں اورمافیا مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتاہے۔ چترال کے لوگ انتہائی سادہ اور بامروت لوگ ہیں ۔ کل آبادی میں سے 98 فیصد مسلمان ہیں اور دو فرقے (سنی اور اسماعیلی) کے مسلمان آباد ہیں اور باقی 2فیصد لوگ کیلاش قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اے۔کے ۔ڈی۔این اپنے زیادہ تر پروجیکٹ چترال کے سرحدی علاقون میں ترتیب دیتے ہیں اور دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ چترال میں روشنی پھیلا چکے ہیں، انتہائی سستی نرخ میں بجلی مہیا کرتے ہیں مگرچترال ٹائون میں موجود ان کے اپنےدفاترمیں موم بتی کا استعمال معمول ہے اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ چترال ٹائون میں سنی کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں وہ اے۔کے۔ڈی۔این کے پرجیکٹ لینے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ این۔جی۔اوز کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ جس علاقے میں کام کرتے ہوں وہاں کے لوگوں کو موبیلائز کریں اور پھر کام شروع کریں۔

مگرتین دہائی گزر گئے وہ چترال کے لوگوں کو موبیلائز نہ کرسکے اوراسی موبیلائزیشن کے نام پر کروڑوںروپے ہڑپ کرچکے ہیں۔ کیونکہ اسماعیلی کمونٹی اے۔کے۔ڈی۔این کے ساتھ عقیدہ رکھتے ہیں انہیں موبیلائز کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور سنی کمیونیٹی موبیلائز نہیں ہوئی اور موبیلائزیشن کے نام پر رقم؟؟؟ مگر ستم ظریفی یوں دیکھئے کہ اگر سنی کمیونیٹی میں سے کوئی شخص پوچھنے کی کوشش کرے تو اسے فرقہ واریت کا نام کر بذور سرکار دبا لیا جاتا ہے اوراگر اسماعیلی کمیونیٹی میں سے کوئی پوچھنے کی جرت کرے تو اسے روحانی اذیت دیکرخاموش کیا جاتا ہے اور یوں ان چند خاندانوں کی اجارہداری جاری و ساری ہے۔ اب چونکہ یہ تمام باشعور نوجوانون کا  فرض بنتا ہے کہ نوجوانان چترال کے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ انصاف اور میرٹ کے مطابق کام ہوسکے۔ ہم کئی بار ان کی ٹاپ نام نہاد لیڈرشپ سے بات کرچکے ہیں اور ان اداروں کی کارگردگی اور ان کے بارے میں اپنے تحفظات سے بھی اگاہ کئے مگر وہ اپنے جھوٹے وعدوں اور تسلی کے علاوہ کچھ نہ کرسکے اور اگر یہ لوگ جان لیتے ہیں کہ کوئی ان کے لئے زیادہ مسلہ پیدا کرنے والا ہے تو فوراً اسے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

درحقیقت یہ لوگ منافقت کے آخری حدوں کو پار کرکے بے غیرتی، بے ضمیری اور گمراہی کے اس وادی میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہے اور ایسے میں جہاں اگے بڑھنا نقصان دہ اور واپسی ناممکن ہو تو درمیانی راستہ ٹکرائو کا رہ جاتاہے۔ لہذا اب وقت آچکا ہے کہ نوجوانان چترال یہ فیصلہ کریں ان ضمیر فروشوں کے اگے جھکنا ہے یا دست گریباں ہونا ہے۔ کیونکہ مفاہمت وہاں چلتی ہے جہاں ضمیر زندہ ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔      

You might also like
6 Comments
  1. noor says

    Sherjehan, you are living in fools paradise. If God has given you eyes, you would have not written this article, i know you some one has fed you. I have seen with my own eyes AKDN work in remote areas of Chitral. Have some sense being Ismaili you are against your own institutions.

  2. Syed Tanveer Hayat says

    No doubt that AKDN has done miracles in the various parts of pakistan in the field of Culture,Education and Human development. Hunza is the best example in the regard.But as far as Chitral is is concerned I hundred percent agree with you that it has become a puppet in the hand of few Families,I would like to say it the Mafia,The Exploiters.The use religion for their own personal benefits and exploit the people.The belong to both the communities.They are the bloodiest people,the conscienceless and the demoralized people.They have destructed the vision of AKDN. The are the beasts in human complexion. They have played their heinous role in spreading sectarianism in Chitral. But today the educated people know their vaulting and vicious intentions very well.I call upon the youth of Chitral to come forward and raise your voice against their monopoly on AKDN in Chitral.

  3. SR Khan says

    Dear Sher Jahan, I would agree with you to the point that compared to other places i.e., Hunza, not much progress has been made in Chitral. However, some of the ideas you presented need a revision.
    For example, the Ismaili community may have regard for AKDN but to say it gives it a spiritual status is not true, the criticism from the members of the community is a case in point. Even in upper Chitral many of its beneficiaries are not Ismailis. If you look at the number of employees in the economic and rural development wing, not all of them are Ismailis.
    So the point is that sectarian affiliations do not play major role rather the clan (qawmi) affiliation of these people plays a role.
    You complained about its lack of work in Chitral Town, in upper Chitral they complain that it is doing more work in lower chitral.
    One thing you did not touch at all is the opposition to it by some religio-political parties, the issue of PDCC land is a case in point. The land was bought, but the main opposition was from Chitral town itself, religio-political parties did not want it to be constructed there.

  4. Murad Akbar says

    It would have been better had the writer provided the readers with some specific examples. It sounds like he is generalizing some personal issues. AKDN’s contribution in socio-economic development of chitral is beyond any doubt. The writer also failed to present some concrete suggestions for improvement, that shows the article is linked more to personal issue than public one.

  5. ijaz ahmad says

    dear sir what was the issue which you took up with the concerned authority and were not entertained?…

  6. Chitral baba says

    Sher Jahan you nailed it.No more tolerance,patient .Our society’s system must be based on golden principle of Islam’ Adal o Insaf.

Leave a comment

error: Content is protected!!