اُستاذ الاساتذہ
صدابصحرا
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ
شیر جوان خان مرحوم کو گلگت بلتستان اور چترال میں استاذ الا سا تذہ کہا جاتا تھا انہوں نے 20سال کی عمر میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا 6سالوں میں 10سالوں کا کورس مکمل کیا 27سال کی عمر میں مدرس کا پیشہ اختیار کیا 60سال کی عمر مین ریٹائر منٹ لے لی مگر 94سال کی عمر تک استاذا لاسا تذہ کی حیثیت سے نئی نسل کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے
ان کی زندگی بجائے خود ایک سبق تھی 1923ء میں ضلع غذر کے خوبصورت گاوں پھنڈر میں پیدا ہوئے 1943ء میں گلگت کے ایک سکول میں داخل ہوئے اُس وقت ان کی عمر20سال تھی 1949میں سکول کی تعلیم مکمل کی 1950ء میں انہیں گاوں کے ڈائمنڈ جو بلی سکول میں استاد مقر ر کیا گیا یہ سکول سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے قا ئم کیا تھا 1979ء میں انہیں ریٹائر منٹ ملی 29سال کی با قاعدہ ملازمت میں انہوں نے ہزاروں شاگرد پیدا کئے گلگت بلتستان اور چترال میں استاذ کی بڑی عزت کی جاتی ہے بڑے بڑے افیسر ،سیاستدان ،سرمایہ داراور جاگیر دار بھی پرائمری سکول کے استاذ کے ہاتھ چوم لیتے ہیں ان کی قدم یوسی کو باعث عزت سمجھتے ہیں 94سال کی عمر میں شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد ان کی ایسی عزت کرتے تھے جیسی عزت
بڑے شہروں میں کمرہ جماعت کے اندر ڈنڈے والے استاذ کی ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کل وقتی استاد تھے دل لگا کر پڑھاتے تھے اوربچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے 1973میں وہ علاقے کی پہلی کو نسل کے سربراہ بنے اور عوام کی بے لوث خدمت عمر بھر جاری رکھی
حالات حاضرہ اورعالمی وملکی سیاست سے ان کی دلچسپی زمانہ طالب علمی سے تھی اپنی پہلی تنخواہ میں انہوں نے ٹرانسٹر ریڈیو خریدا 1966میں میں ذولفقار علی بھٹونے فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ سے استفعی دیا تو انہوں نے نیا ریڈیو سیٹ خریدا لوگوں کو مثردہ سنایا کہ بھٹو ایوب خان کی جگہ لے لیگا 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تواستاز شیر جوان خان جیالوں کی پہلی صف میں جا کھڑا ہو ا اُس وقت گلگت بلتستان ،غذر اور پھنڈرمیں ریاستی حکمران کا دور تھا راجہ حسین علی خان علاقے کے حکمران تھے بھٹو کا منشور 22خاندانوں کی دولت غریبوں میں تقسیم کرنا تھا وہ راجوں مہا راجوں کا تختہ الٹ دینے کا عزم لے کر اُٹھے تھے اس لئے ان کی پارٹی میں شامل ہونا ’’آبیل مجھے مار‘‘کے مترادف تھا بھٹو کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ 4اپریل 1979ء کو بھٹو کی پھانسی کی خبر نشرہو ئی تو انہوں نے اپنا ریڈیو ریزہ ریزہ کر کے پھینک دیا یہ ان کی غیر ت کا مظاہرہ تھا استاذ شیر جوان خان مرحوم نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں قائدانہ صلاحیتیں ان کو وراثت میں ملی تھیں وہ یشکن قومیت سے تعلق رکھتے تھے چترال کے حکمران امان الملک نے 1860ء میں ان کے پڑدادا کو بندہ صادق نہاد وراست باذ قراباش لکھ کر صنعت عطا کیا تھا اس مناسبت سے ان کا کنبہ قراباش کہلاتا ہے ان کے والد گرامی کا نام سعا دت خان تھا 1942ء میں وہ پہلی بار ہندوستان کی سیاحت پر گیا ممبئی میں وقت گزارا اس کے بعد ان کے خاندان میں علم کا دور شروع ہوا
شیر جوان خان مرحوم خاندان کے پہلے تعلیم یافتہ فرد تھے ان کا بیٹا عبدالجہان بھی باپ دادا کی طرح قائدانہ صلاحیتوں کا مالک ہے سول سو سائیٹی کے پلیٹ فارم سے علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے سر گرم عمل ہے 2014ء میں نگراحکومت قائم ہو ئی تو عبدالجہان کو کابینہ میں شامل کیا گیا اپنی اولاد کو پھلتا،پھولتا اور بلند عہدوں پر سر فرازہوتا ہوا دیکھنا اُن کی بڑی آرزو کی تکمیل اور خوش قسمتی تھی وہ اچھے دوست ،اچھے استاذ،اچھے لیڈر اور اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند ہونے میں بھی بے مثال تھے زندگی بھر انہوں نے کبھی بیماری کی شکایت نہیں کی کبھی دوائی نہیں لی 13ستمبر 2017ء کو اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے بیمار ہوئے ہسپتال پہنچے ICUمیں داخل ہوئے اور اپنی جا ن وہیں ،جان آفرین کے سپرد کر گئے ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘وفات کے بعد ان کی بہت سی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن گئیں ایسی ہی ایک تصویر میں و ہ چترال کے ادیب ،شاعر اور فنکار گل نواز خاکی مرحوم کو کتابوں کا تحفہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں فلک نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی آج دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں 20سال کی عمر میں سکول جانا اور29سال دوسروں کو پڑ ھا کر استاذالا ساتذہ کا لقب پانا عالمی ریکاڈ ہو یا نہ ہو پاکستان کی تاریخ کا ریکاڈ ضرور ہو گا۔
Great.This is unforgetable obituary on a great personality of a far flung region.