انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شروع شروع میں انسانی معاشرے میں مدر سری یعنی کہ عورت کی اجارہداری قائم تھی۔ عورت معاشرے کے تمام انتظامی عمور کے ذمہ دار اور خاندان کے تمام معاملات طئے کرتی تھیں۔
رشتے ماں کے نام سے یاد کئے جاتے تھے۔ انسانی معاشرے میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ معاشرے میں آمدنی مساوات کی بنیاد پر تقسیم کئے جاتے تھے۔ لالچ، ہوس اور ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ملتا تھا۔ اس کے بعد زرعی انقلاب کا دور آیا انسان خانہ بدوشی ترک کرکے معاشرہ آباد کرنے لگا تو دریاؤں کے کنارے بستیان بسانے کے ساتھ انسانی معاشرے میں گوناگوں مسائل پیدا ہونے لگے اور ان میں سب سے اہم مسلہ یہ تھا کہ ان بستیوں کو صحرائیوں اور کوہستانیوں کے حملوں سے کس طرح بچایا جاسکے جو بدستور خانہ بدوشی کی زندگی گذار رہے تھے۔
چونکہ معاشرہ وجود میں آچکا تھا لوگ خانہ بدوشی ترک کرکے ایک جگہ مستقل سکونت اختیار کرچکے تھے۔ اسلئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے بستیوں کے مکینوں نے ہتھیار بند دستے بنائے جن کی قیادت مضبوط اور دلاور افراد کے سپرد کی گئی۔ یہ سردار جنگی تیاریوں میں مصروف رہتے تھے اس لئے عام کاشتکار وں نے اپنی پیداوار کا کچھ حصہ ان کی وجہ معاش کے لئے وقف کر دئیے تاکہ دفاع کا کام یکسوئی سے سرانجام دے سکیں۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ یہ سرادار بادشاہ بن بیٹھے اور عوام کے ذہن و دماغ میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو دیوتاؤں کی اولاد قرار دئیے اور معاشرے میں بادشاہت کا آغاز ہوا اور وہ لوگ جن کو معاشرے کے محنت کش طبقہ چوکیداری یا رکھوالی پر معمور کئے تھے اسی معاشرے کے بادشاہ بن بیٹھے۔
اس کا ایک وجہ یہ سامنے آتا ہے کہ معاشرے کے تمام لوگ محنت پر یقین رکھتے تھے اور جو پیداوار جمع ہوتا تھا اسے مساوات کی بنیاد پر تقسیم کئے جاتے تھے اور معاشرے میں ” میں ” یا ” میرا” جیسے لفظ موجود ہی نہیں تھے اور یہ سب قدیم اشتمالیت کے دور کی مرہون منت تھی۔ مگر چوکیدار کی بادشاہت قائم ہونے کے بعد انسانی معاشرے میں لالچ، ہوس، حسد ، بغض جیسے برائیاں جنم لینے لگے کیونکہ شخصی املاک نے انسانی اخلاق کو متاثرکئے تھے اور شخصی املاک انہی چوکیداروں کی ہٹ دھرمی کے بعد شروع ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ چوکیداری سے بادشاہ بن گئے اور معاشرے کے سارے پیداوار پر یہ قابض ہوتے گئے اور غلامی کا تصور بھی اسی وقت سے شروع ہوا۔ “شخصی املاک کی ہوس نے انسانی معاشرے میں وحشت کو جنم دیا اور انسان اپنے ہی جیسے انسان سے خوفزادہ ہونے لگے اور املاک بڑھانے کی لالچ میں باپ بیٹے کا، بھائی نے بھائی کا، شوہر نے بیوی کا، ماں بچوں کا تو کبھی بچے ماں باپ کا خوں بے دردی سے بہایا۔ انسانی معاشرے میں پدری اور مادری جبلتیں اساسی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے دامن میں ایثار، بے نفسی، مروت، احسان، رحم وکرم جیسے مثبت اور تعمیری جذبات نے پرورش پائی تھی لیکن شخصی املاک کے جنون اور ہوسِ زر و مال نے انسانی فطرت کو مسخ کرکے رکھ دیا۔
املاک کا لالچ ہی انسانی تاریخ میں خون ریزی، سفاکی اور قتل و غارت جیسے گھناؤنے جرائم کا سب سے بڑا سبب رہا ہے اور آج بھی یہی لالچ جرائم اور استحصال کا اولین محرک ہے” (تاریخ کا نیا موڑ از علی عباس جلالپوری) اس کے بعد انسانی معاشرہ ترقی کرتا گیا انسان کی بہتری کے لئے مذہب کی تنظیم کی گئی دنیا ریاستوں میں تقسیم ہوگئی اور چوکیداری کا وہ پرانا نظام لشکر کی شکل میں معاشرے میں موجود رہا ۔ انسانی بہبوداور مسائل پر قابو پانے کے لئے قوانین واضح کئے گئے۔ اور انسان آہستہ آہستہ اپنے ہی پیدا کردہ وحشت کے دور سے نکلتا رہا اور معاشرے میں آزاد خیالی عام ہونے لگی ۔ غلامی کے تصور کو ختم کیا گیا اور بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوا اور معاشرے میں برابری کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے اور علم کی حصول کو عام کیا گیا تاکہ انسان حقوق العباد سے باخبر ہوسکے۔ اور جد جہد کو زندگی کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔ ظلم کے خلاف آواز بلند ہونے لگے ۔ مگر انسان ظلم کو مکمل طور پر نہ مٹاسکا۔ اور آج بھی دنیا میں کئی ایک معاشرے ایسے موجود ہیں جہان مظلوم انسان ہے تو ظالم بھی وہی انسان ہے ۔ جس کا واحد وجہ صرف اور صرف شخصی املاک ہے۔
مگر انسان پھر بھی جد وجہد میں مصروف ہے کہ کسی نہ کسی طرح انسانوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اور بہت سے ممالگ اس کوشش میں کامیاب ہوچکے ہیں اور ان معاشروں میں خوشحالی ، امن و امان، مساوات اور عدل و انصاف قائم ہیں اور انسانوں کو بنیادی ضروریات زندگی بآسانی میسر ہیں ۔ کیونکہ ان معاشروں میں اخلاقیات اپنے عروج پر ہیں اور شخصی املاک کے بجائے لوگ محنت پر یقین رکھتے ہیں جو ان معاشروں میں کامیابی کی کنجی تصور کی جاتی ہے اور چوکیدار گروہ بادشاہ بننے کے بجائے دفاع کا جو مقدس فرض ہے ، خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے۔ مگر وہ معاشرہ آج بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں جہاں کی چوکیدار طبقہ آج بھی بادشاہ بننے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسے معاشروں میں ظلم بربریت، حسد، لالچ اور بغض جیسے برائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ اور ایک انسان دوسرے انسان سے خوف محسوس کرتا ہے۔ جو کہ مملکت خداداد میں بھی یہی کیفیت طاری ہے ہر طرف خوف چھائی ہوئی ہے۔ مگر امید کا دیا جلائے رکھنا چائیے کیونکہ ظلمت کی رات کتنی ہی تاریک کیون نہ ہو ایک نہ ایک دن اسے روشنی کے اگے ہار ماننا ہی پڑے