Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

ای ڑاغ ای ڑاغوت کیہ تنا؟

شیرولی خان اسیرؔ کھوار زبان میں” ڑاغ” گنجے کو کہتے ہیں۔ مگر بغیر سنگوں کے بکری بکرے کو بھی ڑاغ بولتے ہیں یعنی “ڑاغ پئے/تیچ” جب کہ بغیر سینگوں کے بیل یا گائے کو “ڑونگ ریشو/لیشو”  کہتے ہیں۔ جب دو مساوی درجے کے گنہگار  ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے ہیں یا ایک بدصورت آدمی دوسرے بدصورت  کو بدصورت بولدے تو اس وقت ہم کہتے ہیں کہ” ای ڑاغ ای ڑاغوت کیہ تنا” یعنی ایک گنجے کا  دوسرے گنجے کو( گنجا پن کا) طعنادینا ۔ آدمی بھی عجیب مخلوق ہے۔ اس کو اپنی غلطی کبھی نظر نہیں آتی۔ دوسروں کا چھوٹا سا گناہ بھی اس کو بہت بڑا نظر آتا ہے۔ یہ اس کی حماقت ہے یا بے شرمی جسے ہماری کھوار زبان میں ‘تان گردنی سنجِرو نو پوشی خورو گردنی درؤ پوشِک’ کہتے ہیں۔ یہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب ایک بڑا گنہگار کسی دوسرے بندے کی معمولی غلطی پکڑتا ہے۔ کھوار کے اس  جملے کا لفظی ترجمعہ کچھ یوں بنتا ہے، ‘ اپنی گردن پر شہتیر نظر نہیں آتا دوسرے کی گردن میں بال نظر آتا ہے، اس کا اردو مترادف غالباً یہ ہے، ‘اپنا ٹینٹ نہ نہارےاور کی پھلی دیکھے’۔ آجکل پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے ایک دوسرے کی جو ‘تعریف’ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر جورنگ رنگ کے الزامات کی بمباری شروع کررکھی ہیں ان کو ہم یہی کچھ کہیں گے کہ “ای ڑاغ ای ڑاغوت کیہ تنا؟” یہ کہاوت درست آتی ہے۔ ہم بیچارے نادان پاکستانی ان کے ایک دوسرے پر الزام ڈالنے کی مہم کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ زرداریؔ  صاحب نواز شریفؔ صاحب  کو چور کہتا ہے تو ہم تالیاں بجاتے ہیں اور جب نون والے زرداری کو چوروں کا بادشاہ بلاتے ہیں تو ہم تالیاں بجاتے ہیں۔ ہم سے تالیاں بجا بجا کر ان میں سے ایک نہ ایک ہم پرپھر مسلط ہوجاتا ہے اور ہمارا خون نچوڑنے لگتا ہے تب ہمیں ہوش آتا ہے اور دل ہی دل میں “خود کردہ را علاجے نیست” کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں۔ یہ مداری آج  آپس میں دشمن نظر آتے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے بڑے چھوٹے بھائی تھے۔نواز شریف اینڈ کمپنی نے پانج سالوں تک زرداری اینڈ کمپنی کو ملک لوٹنے دیا۔ 2013 کے الیکشن کیمپین میں نواز اینڈ برادرنے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوٹا ہوا مال واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اقتتدار جو ہم سب کو یاد ہے۔ اقتتدار میں آنے کے بعد چپ سادھ لی۔ اس کے بدلے میں پی پی پی نے نواز کی حکومت میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اب چونکہ انتخابات قریب آرہے ہیں تو ووٹروں کوپھر سے بے وقوف بنانے کیلیے ایک دوسرے کو چور چور پکار رہے ہیں۔ سعد رفیق، خواجہ آصف، عابد شیر علی ،رانا ثنااللہ اور دوسرے حواری قوم کے سامنے آکر اتنی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں  کہ ہمارا بس چلے تو ان کے منہ توڑ دیں۔ اس طرح پی پی پی کے زرداری، شرجیل میمن، چانڈیو وغیرہ نواز اور ان کی پارٹی لیڈران کے خلاف  زہر اگلتے ہیں تو دل چاہتا ہے ان کے منہ میں خاک ڈالیں۔ ان کے ڈھیٹ پنے اور بے شرمی دیکھ کر ہمیں میڈیا والوں پربھی  غصہ آتا ہے کہ خدا کے بندے ان کی تقریریں ہمیں سنا سنا کر ہمیں کیوں پاگل بناتے ہو؟ ہمارا اور اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہو؟  ان کی اشکال ہمیں دکھاکر ہمیں دق کرنے میں تمہیں کیا کچھ حاصل ہوتا ہے؟ اس کے بجائے نور جہاں، مہدی حسن، نصرت فتح علی خان اور دوسرے گلوکاروں کے گانے ہمیں کیوں نہیں سناتے تاکہ ہم  میٹھی آواز اورموسیقی میں کھو کر چند لمحوں کے لیے اپنے ان لٹیرے لیڈروں کی جھوٹی زبان اور ناقابل قبول شکلوں کو بھول سکیں؟ پرویز مشرف پربھی غصہ آتا ہے کہ اس نے این آر او کے ذریعے زرداری کی زنجیریں کھولدیں اور معافی کے ذریعے نواز شریف کو ملک بدر کیا۔ ان دونوں کویا تو جھیل میں ہونے  چاہیےتھا یا بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزارنا تھی۔ ان دو ڈاکوں کو آزادی دے کر مشرف صاحب نے اچھا نہیں کیا۔ اس کا خمیازہ وہ خود بھی بھگت رہے ہیں۔]]>

You might also like
1 Comment
  1. meherban says

    bo sheli lu sahib….ispa awon wa ka kigh d reki khoshan….hardy ty khbran sar d cheti sher..kia e anus nu e anus khur biya reki talk show re ispa gadri korey asuni….ispaty boghuzo hy matal bety sher…mula beko hardy pat boyn sora neseko kagh ma xeboyn….

Leave a comment

error: Content is protected!!