فیصلہ آپ خود کریں
شیر جہان ساحل
معلون محمد الرشید الدین والد محمد نور ساکنہ سوریچ تورکہو چترال میں 1986ء کو پیدا ہوئے اور گورنیمنٹ ہائی سکول ریچ سے 2004ء میں میٹرک کا امتیحان پاس کیا اور ایک سال تک گھر میں رہا ” یہ تقریبا چترال کے تمام پسماندہ علاقوں کے طالب علم نوجوانونکا معمول ہے کہ کیریئر پلان نہ ہونے کے باعث میٹرک کے بعد ان کے ایک دو سال گھر بھیٹَے ضائع ہوجاتےہیں” ایک سال مسلسل گھر میں بے کار رہنے کے بعد وہ آخر کار بہتر مستقبل اور بہتر روزگار کا خواب لیکر2006ء کو اسلام آباد چلا گیا جہاں مختلف جگہوں پر کام کرنے کے بعد وہ 2008ء کے آخر میں قطر چلا گیا اور (سی سی سی) میں مستری کے ساتھ ہیلپر بھرتی ہوا۔ اور 2015ء تک اس کمپنی کے ساتھ منسلک رہا۔ اس دوران وہ ہر دو سال بعد گھر آتا جاتا رہا اورجب پہلی بار واپسی ہوئی تو والدین نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بیٹے کی شادی ہوجائے اس پر انہوں نے والد سے کہا کہ آپ جسے چاہیں میری شادی کرلیں اور اس کے بعد نور محمد نے اپنے براداری میں سے ہی اپنے لئے بہو پسند کیاجو کھوت تورکہو سے تعلق رکھتی تھی۔ اسطرح 2012ء میں محمد الرشیدکی شادی ہوگئی اور چھٹی پورا ہونے کے بعد واپس دوہا قطر چلا گیا۔ موصوف کا اس وقت ایک بیٹی بھی ہے۔ جو اپنے والدہ کے ساتھ رہتی ہے۔ قطر کے اس کمپنی میں رابطہ کرنے سے پتہ چلا ہے کہ راشید اس کمپنی (جسکا ذکر اوپر کیا گیا ہے) کے جی۔پی۔ایل پروجیکٹ میں بھرتی ہوا تھا اور دوہا کے اندار راسلافان نامی جگے پر تعینات تھے اس کے دو سال بعد وہ ائرپورٹ پروجیکٹ پر چلا گیا اور اخری وقت یعنی 2015ء تک وہ اسی پرجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ کمپنی میں موجود اس کے ساتھیوں سے جب اس کے رویے کےبارے میں پوچھاگیا تو پتہ چلا کہ راشید شروع شروع میں نارمل تھا مگر 2013ء کے بعد اس کی طبعیت میں چڑچڑا پیدا ہوا اور معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا کرنا شروع کیا۔ کمپنی کے ہر فرد کے ساتھ اس کا منہ ماری ہو رہا تھا اور چڑچڑاہٹ اس کی پہچان بن گئی تھی۔ چونکہ تمام ساتھیوں کے ساتھ اس کا نہیں بن رہا تھا اور وہ تنہائی کا بھی شکار ہو گیا تھا اورجب الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے تو اس کے قریبی رشتہ دار ، دوست جو قطر میں رہتے تھے اس کی خراب حالت پر ترس کھاتے ہوئے اسے قاری عبدول حمید (جوکہ تریچ سے تعلق رکھتا ہے اور اس وقت وہ بھی قطر میں ہیں) کے پاس لے گئے دم دعا کروا کر اسے واپس کمپنی لے گئے۔ یہ ہماری رویت رہی ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے پہلا علاج دم دعا کے ذرئعے ہی کرواتے ہیں کیونکہ اس سے ہمارا عقیدہ منسلک ہوتا ہے اورعقیدہ والا بندے کو ذہنی سکون بھی ملتا ہے۔ اس طرح دو تین مہینے کے بعد راشید سخت بیماری میں مبتلا ہوا اور اس کے ہاتھ پاون کاپنے لگے تو کمپنی کی طرف سے اسےدوہا کے حماد ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں دو میہنے تک اس کا علاج چلتا رہا اورابتدائی ٹیسٹ و تفتیش کے بعد ڈاکٹرون نے اسے ذہنی مریض قرار دئیے اورعلاج جاری رکھنے کا بھی مشورہ دئیے۔ علاج مکمل ہونے کے بعد کمپنی سے فارغ کیا گیا کیونکہ بندہ جب ایک دفعہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے نارمل کارکردگی کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے اور اسطرح 2015ء کے وسط میں وہ واپس چترال آگیا۔ اور ایک سال تک گھر میں رہا، اس دوراں گھر میں بھی معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا کرتا تھا بیوی کے ساتھ مارپیٹ ہوتا رہتا تھا اور اکیلے میں خود سے باتیں کرنا، اندھرے میں ڈر، اور بار بار یہی کہتا تھا کہ کوئی مجھے بلارہا ہے قطر سے کوئی دوست آیا ہوا ہے۔ کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔ بعض دفعہ گھر والے بھی اس کے ساتھ جاتے تھے مگر اس کے بتائے ہوئے جگے پر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آکر گھر والوں کی طرف سے اسے علاج کے لئے مختلف دعاگو عاملون کے پاس لےجایا گیا مگرکوئی خاص افاقا نہیں ہوا ۔ اس کے بعد نور محمد نے یہ فیصلہ کیا کہ بیٹے کو علاج کےلئے پشاور بھیجا جائے اور اپنے چھوٹے بیٹے انورالدین کے ساتھ 20 اپریل کو گھر سے روانہ کیا۔ اسی دن دونوں بھائی چترال پہنچ کر لگژری ہوٹل کے کمرہ نمبر 19 کو بک کئے اور فیصلہ کیا کہ صبح پشاور کے لئے روانہ ہونگے۔ اس طرح رات کو راشید نے پلان تبدیل کیا اور چھوٹے بھائی سے کہا کہ کل ایک اور عامل سے ملیں گے اور اس کے بعد پشاور کا پروگرام سیٹ کریں گے اور الائیڈ بینک چترال میں پیسے جمع کیا تھا اسے بھی نکالنا ہے، یہ کہہ کر راشید نے چھوٹے بھائی کو راضی کیا۔ اسطرح رات بھر سویا نہیں اور صبح اذان کے ساتھ کمرے سے باہر جانے کی کوشش کی مگر انوار نے منع کیا اور ناشتے کے بعد وہ بینک چلاگیا اور جب کافی دیر انتظار کےبعد وہ نہیں آیا تو انوار اس کے پیچھے بینک گیا تو پتہ چلا کہ وہاں پر بھی ہنگامہ کر بیٹھا ہے اور بینک کے عملے کے ساتھ لڑائی جاری ہی تھا کہ انوار بھی پہنچ گیا اور بینک منیجر نے اسے سارا صورت حال بتایا اور انوار نے بینک کے تمام عملے سے یہ کہہ کر معذرت کیا کہ اس کے بھائی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے اور وہاں سے لیکر سیدھا ہوٹل چلا گیا اوروہاں پہنچ کر اسے مذید سمجھایا اور منت کی کہ اس طرح کی حرکتوں سے باز آجائیں۔ اس کے بعد جمعے کی نماز سے پہلے پھر وہ یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ پیسہ کم ہیں اور بینک والے بھی پیسہ نہیں دئیے لہذا میں کسی دکاندار سے پیسے کا بندونست کرتا ہوں۔ کافی ٹائم کے بعد جب انوار اسے فون کیا تو کسی اور بندے نے فون اٹینڈ کیا اور بات پورا کئے بیغر بند کیا۔ دوبارہ کال ملایا اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا فون ہے اور اسکا دماغی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے کہیں آپ کے ساتھ لڑائی تو نہیں کیا۔ اس کے بعد اگے سے اس بندے نے کہا کہ میں چترال پولیس لائن سے بات کر رہا ہوں آپ فورا لائن آجائیں۔ انوار کے بقول جب وہ تھانے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کے بڑی تعداد نعرہ لگا رہے تھے اور حالات کافی خراب دیکھائی دئیے ۔ انوار ہجوم سے ہوتا ہوا تھانے تک پہنچ گیا۔ اور انفارم کیا کہ وہ راشید کا بھائی ہے اس کے بعد تفتیشی افسران ان سے تفتیش کرتے رہے اوراب تک چار مختلف ٹیم کے افسران ان سے تفتیش کر چکے ہیں۔ اور رات بھر سویا بھی نہیں ایک طرف ڈر تھا اور دوسری طرف سونے کا بھی کوئی خاص انتظام موجود نہیں تھا۔ اب مجھے نہیں پتہ میرے اور میرے گھر والوں کو کیا سزا ملے گی اور میرا یقین کوئی کرے گا بھی کہ نہیں مجھے کچھ نہیں پتہ۔ بس میرا صرف للہ تعالی سے یہ امید ہےکہ حالات بہتر ہونگے۔ اور آپ جیسے بھائیوں کے تعاون سے اور میڈیا کے توسط سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ میرے بھائی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے اور ہم پچھلے دو سالوں سے اس کی علاج کروارہے ہیں اور کل بھی اسے علاج کے لئے لے جاتے ہوئے ان حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے نہیں پتہ کہ میرا بھائی نے کیا کہا مگر میرا یقین ہے جو بھی کہا ہوگا غلط کہا ہوگا کیونکہ اس کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک لمبی گہری سانس لیکر انوار خاموش ہوا اور میں اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی کہ اس وقت آپ سمیت ہم سب مشکل حالات سے دوچار ہیں اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ ہمارے اس حال پر رحم فرمائے گا۔ مگر انوار کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا اور میں بھی آبدیدہ ہوکر فون بند کردیا۔ اب جن حالات کا ذکر کیاگیا ان تمام کو بغور پڑھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معلون راشید کا ذہنی توزن درست نہیں ہے اور اس کی پوری فیملی پچھلے دو تین سالوں سے اسے بطور صدمہ برداشت کررہی ہیں اور اب یہ تمام چترال کے لئے مسلہ بن گیا ہے اور یہ چترال اور چترالیوں کا بڑا پن ہے کہ وہ اسے پولیس کے حوالے کئے۔ اور اب یہ پولیس اور انتظامیہ کا مسلہ ہے کہ وہ جلد از جلد مسلے کی تہہ تک پہچنے کی کوشش کریں کیونکہ گستاخی کا مرتکب ہونے کے باوجود لوگوں نے اسے پولیس کے حوالہ کئے اب یہ انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ لوگون کے صبر کا مذید امتحان نہ لےاور اسے قانونی فیصلے سے جلد اگاہ کریں۔ اور اگر حکومت کوئی کوتاہی کرے تو یقینا حالات خراب ہونگے۔ اس کے بعد میں نےیہ جاننے کی کوشش کی کہ شریعت میں ایسے شخص کے لئے کیا سزا ہے اوراس سلسلے میں جب ہم نے جید علما کے صدر اور چترال سے سابق ممبر قومی اسمبلی جناب مولانا عبدالاکبر سے پوچھا تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جسکا دماغی حالت درست نہ ہو شریعت میں ایسے شخص کو مرفوع القلم کہا جاتا ہے اور شریعت کے مطابق ایسے شخص کی کوئی سزا نہیں ہے جسکا دماغی حالت درست نہ ہو ۔ اب ہمیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چائیے اور پولیس اور دیگر تفتیشی ادارون کے ساتھ تعاون کرنا چائیےکیونکہ کسی بے گناہ پر گستاخی کا الزام بھی گستاخی کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی ہمیں صیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ امین۔
If he is mentally ill than how the government ccould punish him and there is no law to punish mentally sick people. Even Islam doesn’t allow to punish these type of people. He needs treatment. Khatib Sab and some other people in the Mosque have done a remarkable work. This is the responsibility of real Muslim. May Allah gives us peace. Amin
شاہجہاں ساحلؔ نے مدعی نبوت ملغون محمد رشید ساکن ریچ کے بارے پوری تفصیل پیش کی ہے۔ جو قابل قدر کام ہے۔تفتیشی اداروں کو اس تحریر سےبہت مدد مل سکتی ہے۔مضمون نگار کے مطابق محمد رشید ذہنی مریض تھا۔اب تک کی خبروں کے مطابق خطیب صاحب جامع مسجد چترال نے بھی یہ کہہ کر اسے مارپیٹ سے بچایا تھا کہ وہ آدمی پاگل ہے۔ ایک پاگل کی بکواس کو لے کر قانوں اپنے ہاتھ میں
لینے کی کوشش کرنےوالے بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔ بہت سے مبصرین بشمول راقم الحروف اس واقعے کو
چترالی عوام کے پرامن ماحول والی زندگی کو سبوتاژ کرنے کی ممکنہ ناپاک سازش قرار دے چکے ہیں۔ حکومت اور چترال کے باشعور اور امن پسند بھائیوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس کی مکمل تحقیقات کرکے مجرم کو ملک کے قانوں کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئیندہ اس قسم کے واقعات کا سد باب ہو۔اگر اس بدترین واقعے کو محض ایک پاگل کی حرکت قرار دے کر فائل بند کی گئی تو اس قسم کی سازشیوں کا قلع قمع ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ہم چترال کے
مسلمان اس قسم کے سازشیوں کے ہاتھوں 1982 میں بہت بڑا صدمہ برداشت کرچکے ہیں۔ خدا راہمیں مزید صدمہ نہ دیا جائے۔