اپریل9 2017 کو شاہی باغ پشاور مین آل پاکستان مسلم لیگ کے کارکنوں کے کنونشن میں میری شرکت اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی قصیدہ گوئی میرے دوستوں اور عزیزوں میں سے بہتوں کو عجیب لگی ہے جس کا کسی نے دبی زبان میں اور کسی نے برملا اظہار کیا ہے۔ ان کے علاوہ ہزاروں عزیز و اقارب ایسے بھی ہیں جو ان خبروں سے لاعلم ہیں اور جونہی وہ جان پائیں گے وہ بھی استفسار کرنے لگ جائیں گے۔ان کی تجسس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں ملازمت کے دوران اپنے آپ کو مکمل طور پر سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے جب کہ میرے بہت سے دوست سیاست کرتے رہے اور فائدہ اٹھاتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی کاموں میں جت گیا اور عملاً سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہی رہا تو میرے بہت سے قریبی دوست سیاست میں کود پڑے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میری کوئی سیاسی پسند نا پسند نہیں تھی یا میں سیاست میں کورا ہوں یا اسے غیر ضروری سرگرمی خیال کرتا ہوں بلکہ اسکی چند وجوہات تھیں اورکچھ اب بھی ہیں۔ میں پاکستانی سیاست کو شیطانیت اور اس کی جمہوریت کو مطلق لعنانیت کی بھیس میں دیکھتا رہا ہوں۔ جہاں غریب کو مرتا اور مٹتا دیکھا ہے اور امیرکو پھولتا پھلتا پایا ہے۔ جہاں ملک ترقی کرنے کی بجائے تنزل کا شکاررہا ہے۔ جس سیاست میں فریب، دھوکہ،جھوٹ، منافقت، بے ایمانی،بے انصافی، ظلم و جبر، درندگی اور بداخلاقی کا راج رہا ہو۔ اسے سیاست کا نام دینا جہالت ہے اور اس کا حصہ بننا گناہ عظیم ہے۔ میں نے اپنی اڑسٹھ سالہ زندگی میں جب سے شعور پایا ہے پاکستانیوں کی سیاست میں مسلمانی کی کوئی رمق نہیں دیکھی ہے۔ جن جن حکمرانوں کو مسلمانی کی صورت میں دیکھا ہے وہ ہماری پاک فوج کا حصہ رہے ہیں اور جن سے ہمارے سیاسی چور،لوٹیرے، ڈاکو اور کرپٹ لوگ الرجِک ہیں۔ ان نام نہاد سیاست کاروں کی زبان کو حرف آخر سمجھنے والے ہمارے ملک کی آبادی کا حصہ ہیں اور جو اتنے جذباتی ‘ڈیموکریٹ’ ہیں کہ جو بات بھی زبان پر آتی ہے اپنے لیڈروں کی حمایت اور ان کے مخالفین کے خلاف آنکھیں بند کئے اگل دیتے ہیں جو مجھے بہت بری لگتی ہے اور میرے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے خاموش حمایتی کے طور پر نسبتاً بہتر نظر آنے والے امیدوار یا پارٹی کوووٹ دیتے اور زندگی گزارتے رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ مجھے بتاتا رہا ہے کہ جن عوامی اداروں کے اندر سیاست، مذہبی فرقہ وریت اور نسلیات کا عمل دخل ہوتاہے وہ ادارہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے میں جب بھی پبلک خدمت کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری عہدے پرکام کر رہا ہوتا تھا اور ہوتا ہوں تو ان تینوں وابستگیوں سے الگ تھلگ رہتاتھا اور ہوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کو بھی الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ انہیں تلقین بھی کرتا رہتا ہوں۔ میری چالیس سالہ سرکاری سروس کے اندر میرے ساتھ کام کرنے والے لوگ اس بات کے زندہ گواہ ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں سماجی خدمت کے کاموں میں مصروف رہا۔ ظاہر ہے کہ مجھے مثبت اور فعال سیاسی کردار ادا کرنے سے باز رہنا پڑا۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ 9 اپریل 2017 کے جلسہ میں میری شرکت کی وجہ کیا تھی؟ اتنے سالوں چپ رہنے کے بعد اچانک بغیرپرٹوکول اور باضابط اعلان کے(کم از کم کسی ضلعی سطح کی بھی) چترالی نوجوانوں کی قیادت کے ساتھ اے پی ایم ایل کے جلسے کا حصہ کیوں بنا؟ تو سنئے میں 2001 سے مشرف کا غیرمشروط حامی ہوں کیونکہ انہوں نے عملی طور پر کر دکھایا کہ ہمیں ہر حال میں ‘سب سے پہلے پاکستان’ کا مضبوط نظریہ قائم رکھنا ہے۔ جب میں نے ان کے ترقیاتی وژن، اصلاحات،غریب اور پسماندہ عوام کے ساتھ ان کی محبت اور ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر للکار نے کا مشاہدہ کیا،جب ان کی زبان و عمل میں یکسانیت دیکھی، جب مجھے ان کی سچی محب الوطنی پر یقین آ گیا ۔ جب ان کا عالی دماغ دیکھا اور ان کی ایمانداری دیکھی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ آدمی بابائے قوم حضرت قائد آعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد پہلا مخلص اور بہادر لیڈر ہے۔ میں ایک سچا ، مخلص اور محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے رشتے سے ان کا حامی بنا اور تا دم آخر رہوں گا۔ ان دعواؤں کے ثبوت اس عرصے کی میری نثری اور منظوم تحریریں ہیں۔ مجھے اپنی پاک فوج کے جوانوں سے لے کر آفسروں تک سب کے سب پر غیر متزلزل اعتماد رہا ہے اور رہے گا۔ ہماری فوج ہماری نظریاتی اور جسمانی سرحدوں کی واحد محافظ ہے۔ یہ ملک اول اللہ کے کرم اور بعد پاک فوج کے دم سے زندہ ہے۔ ملک کی عوام سوائے سیاسی بدمعاشوں کے پاک فوج پر مکمل اعتماد کرتی ہے اس لیے ایک محب وطن،ایماندار آزمودہ کار ریٹائرڈ جنرل کی پارٹی مجھے سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور وطن دوست نظر آتی ہے۔ ہمارا پیارا ملک اور عوام ان سیاسی بدمعاشوں کی چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ جمہوری طریقے سے ان سے چھڑانے کا واحد آپشن ایک تیسری سیاسی قوت ہے۔ عمران خان صاحب سولو فلائیٹ پر ہے اوریقین نہیں آتا کہ وہ ملک کو اس گندھی سیاست کے دلدل سے نکال پائیں گے۔ پاکستان کی دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد جوڑ کر پرویز مشرف صاحب ہی ہمیں سیاسی گند سے نکال اورقزاقوں سے بچاسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف (ر) کا ہم چترال والوں پر بہت بڑا احسان لواری ٹنل ہےجس کی بدولت آج ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی شہری سمجھنے لگے ہیں۔ 1947 سے لے کر 2000 تک ہم انتہائی مسترد شدہ اور معمولی چترالی تھے۔ قابل توجہ اور صاحب حیثیت نہیں تھے جب کہ پرویز مشرف نے ہمیں دنیا کے ساتھ متعارف کرایا اور ہمیں عزت دی۔ میں مرتے دم تک اس کا یہ احسان بغیر کسی لالچ اور طمع کے چکانے کی کوشش کرتا رہا ہوں اور رہوں گا ۔ بحیثیت مسلمان احسان کا بدلہ احسان سے دینا ہم چترالیوں پر فرض ہے۔ آج چترال کے کسی ماں باپ کا کوئی ابصار ولی ثانی پشاور، کراچی یا اسلام آباد کی کسی قبرستان میں دفن نہیں ہوتاہے جب کہ میرا لخت جگر 1990 میں پشاور کی ڈسٹرکٹ کونسل کی قبرستان میں مدفون ہوا تھا اور یہ دکھ قبر تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اس معصوم کا چہرہ جب بھی یاد اتا ہے تو ٹنل بنانے والے جنرل کے لیے اپنی جان پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آج کوئی چترالی علاج کے لیے پشاور جاتے ہوئے راستے میں نہیں مرتا اور نہ لواری کے برفیلی تودوں میں دب کر لاپتہ ہوجاتا ہے جب کہ ماضی میں ہزاروں افراد اس درے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ آج کے نوجوان کو جس کا علم نہیں ہے۔ آج میں چترال کے سرد ترین موسم میں تازہ فروٹ، گوشت اور سبزی کھا تا ہوں جو 2008 سے پہلے ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ آج بھوک سے کوئی چترالی نہیں مرتا جب کہ ماضی میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ آج چترال کی عوام استحصالی کاروباری طبقہ کے ہاتھوں لٹنے سے بچ چکی ہیں جب کہ لواری سرنگ بننے سے پہلے ان کی کند چھری اور ہماری گردن تھی۔ میری لغت میں جو پارٹی ملک کی نظراندازعوام کے حقوق کی حفاظت کرے گی وہی اصل اسلامی اور پاکستانی پارٹی متصور ہوگی۔ آج مجھے پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اس معیار کی سیاسی پارٹی نظر آتی ہے۔ صرف اور صرف پرویز کی قیادت میں ہم اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے ملک کے لاچار طبقے کو اس کا حق دلا سکتے ہیں۔ آج میں چترال کے نوجوانوں کے ہمراہ اے پی ایم ایل ورکرز کنونشن میں شرکت کرنے کو باعث فخر سمجھتا ہوں کیونکہ یہ نوجوان میرے شاگردوں کے شاگرد اور بچے ہیں اور میرے ملک اور چترال کا مستقبل ہیں۔ چترال میں اے پی ایم ایل کو دوبارہ زندہ کر نے کا سہرا ان نوجوانوں کے سر ہے جو قریب المرگ ہوگئی تھی۔ اگر پی پی پی زرداری صاحب کے بے تجربہ نوجوان بیٹے پر اعتماد کرسکتی ہے اور اس کی قیادت میں چل رہی ہے تو میں اپنے ملک کے ایک غریب سیدزادہ نوجوان پر کیوں اعتماد نہ کروں جبکہ میرا یہ برخوردار بلاول بٹھو سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھتا ہے؟ میں اپنی صلاحیت کے مطابق کم از کم چترال کی سطح پر کرپشن، خویش پروری، جھوٹ، فریب اور بے انصافی سے پاک سیاست کے فروع کے لیے اپنی سی کوشش کروں گا۔ اپنے برخورداروں کی صاف ستھری سیاست کی تربیت کرتا رہوں گا تاکہ ائیندہ نسل اسے عبادت سمجھ کر اپنا لے۔ میرے دوسرے سیاسی دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ شرافت کی سیاست کی بنا ڈالنے کی کوشش کریں۔ مجھے پارٹی ٹکٹ کا لالچ نہیں ہے اور نہ کوئی دنیاوی غرض ہے۔ میں اس قسم کی سیاست پر لغنت بھیجتا ہوں جس میں انسان کا ذاتی مفاد پیش نظر ہو۔ میں اپنی چترالی قوم کو لے کر جنرل پرویز مشرف کا احسان چکانے کا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں جو آج تک میں کھل کر نہیں کر پایا ہے۔]]>