Site icon Chitral Today

نئی چترال یونیورسٹی کا قیام

 ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

کینیا میں ایک ٹیلی وژن چینل کو انٹر ویو ددیتے ہوئے بھارتی دانشور نے بڑے پتے کی بات اپنے ہم وطنوں کے بارے میں کہی ہے اُن کا کہنا ہے کہ بھارت کے لوگ ہر اُس مسئلے پر بات کر نے کے عادی ہیں جو اُ ن کا مسئلہ نہیں ہے انہوں نے مثال دی ہے کہ بھارت کے اندر چائے بنا نے والا وزیراعظم کے حکومت چلانے پر 10 باتیں کر ے گا، ٹنڈ و لکر کی بیٹنگ پر 10 باتیں کریگا اُس کو دنیا کے ہر شعبے کے ہر کام کا پتہ ہوگا، صرف چائے بنا نے کا طریقہ اس کو نہیں آئے گا

یہاں ہر شخص جانتا ہے کہ دوسرا شخص اپنا کام کس طرح کرے المیہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنا کام نہیں جانتا بھارتی دانشور کے جواب میں ٹی وی کی اینکر پر سن کہتی ہے کہ کینیا میں بھی ایسا ہی ہے اگر ہم میں سے کسی کی رائے لی جاتی تو ہم کہتے کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے اور سوشل میڈیا آنے کے بعد حالات میں مزید گڑبڑ پیدا ہوگیا ہے سوشل میڈیا پر کسی کی پہچان ہی مشکل ہے 90 فیصد لوگ جعلی اکاؤ نٹ استعمال کرتے ہیں گمنام لوگوں کی طرف سے رائے دیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں الزامات لگاتے ہیں اور خواہ مخواہ کسی کا میڈیا ٹرائل شروع کردیتے ہیں 2016-17 ؁ء کا بجٹ آیا تو اپنی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ مظفر سید نے نے لوئیر دیر میں میڈیکل کالج اور انجینئر نگ یونیورسٹی کے ساتھ چترال اور بونیر میں دو یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا بجٹ میں ان منصوبوں کے لئے رقوم مختص کی گئیں اٹھا رویں ترمیم کے بعد ہا ئیر ایجو کیشن صوبائی معاملہ ہے صوبے کا اختیار ہے وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے حصے کی رقم کا ایک معقول حصہ یونیورسٹیوں کے انفراسٹر کچر کے لئے دے دیتی ہے7 ستمبر 2016 ؁ء کو چترال میں جلسہ عام سے خطاب کر تے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے چترال یونیورسٹی کے لئے رقوم مختص کر نے کا اعلان کیا

اس طرح چترال یو نیورسٹی پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا اتفاق ہو گیابونیر کی یونیورسٹی بن گئی لوئیر دیر میں اعلیٰ تعلیم کے دو بڑے اداروں پر کام شروع ہوا مالی سال کے 9 مہینے گذرنے تک چترال یونیورسٹی کے لئے راجیکٹ ڈائر یکٹر کا انتخاب نہ ہوسکا خدا خدا کر کے 31 مارچ 2017 ؁ء کو پراجیکٹ ڈائر یکٹر کا تقر ر عمل میں آیا پشاور یونیورسٹی کے سابق ڈائر یکٹر پلاننگ اینڈ ڈیو لپمنٹ پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ مُنیر بخاری کو پراجیکٹ ڈائر یکٹر مقرر کیا گیا موصوف پشاور یونیورسٹی میں ایڈمن ، ایگز امنیشن ، پلاننگ اینڈ ڈیلوپلمنٹ اور پرووسٹ آفس میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں انتظامی امور اور پراجیکٹ ڈیز انینگ میں ان کا با یو ڈیٹا معتبر مقام رکھتا ہے مگر ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ نے ان کے تقرر نامے کا نوٹیفیکشن جاری کر تے ہوئے 5 فنی اور تکنیکی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے فیس بُک پر جو نوٹیفیکشن دیا گیا ہے اس پر 31 مارچ 2017 کی جگہ 31 مارچ 2016 ؁ء کی تاریخ درج ہے نوٹیفیکشن کا پہلا پیراگراف غا ئب کردیا گیا ہے اس میں صوبائی حکومت کے منصوبے ، بجٹ2016-17 ؁ء میں اس کی گنجائش اور ضرورت والا پیراگراف نہیں لا یا گیا پراجیکٹ ڈائر یکٹر کو جو ٹر مز آف ریفرنس دیا گیا وہ مبہم ہے اس کی زبان غیر معیاری اور قانو نی تقاضوں سے عاری ہے نوٹیفیکشن کے آغاز میں شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے مقامی کیمپسز کو آپس میں ضم کر کے چترال یونیورسٹی بنا نے کا ذکر آیا ہے مگر نوٹیفیکشن کی کاپی جن حکام کو بھیجی گئی ان میں شہید بے نظیر بھٹو یو نیورسٹی اور عبدالولی یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کا ذکر نہیں ہے پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا نام دوبار آیاہے اسطرح کے مجاذ حکام نے ایک ورق کا غذ کے قا نونی نوٹیفیکشن میں 5 فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ محکمہ یو نیورسٹی بنانے اور چلانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے ازمائے ہو ئے ہیں درین اثنا وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں چترال یو نیورسٹی پر کام شروع کر دیا ہے۔ 5 اپریل کو منعقدہ اجلاس میں صوبائی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ یو نیورسٹی کا چارٹر اور PC-1 جلد از جلد فراہم کیا جا ئے۔تا کہ فنڈ جاری کئے جا سکیں۔

اگر یو نیورسٹی چارٹر اور PC-1 درست طریقے سے بر وقت وفاقی حکومت کو بھیجا گیا تو تعمیراتی کام کے لئے 3 ارب روپے ریلز کئے جا ئیں گے۔ شرط یہ ہے کہ اٹھاروین ترمیم کے تحت صوبائی حکومت یو نیورسٹی کے لئے 450 کنال زمین فراہم کر ے گی۔ صوبائی حکومت کے پاس 176 کنال زمین اور 27 کنال پر عمارت موجود ہے مزید 250 کنال زمین خریدنے کا مر حلہ درپیش ہے۔ مالی سال کے صرف 3 مہینے رہ گئے ہیں وقت کم اور چیلنج بہت بڑا ہے۔ موجودہ مالی سال کے آخری تین مہینوں میں چترال یو نیورسٹی کو خواب سے حقیقت میں بدل دینا بہت بڑا چیلنج ہے ۔اگر ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ سول سکرٹریٹ پشاور کا قبلہ درست کیا گیا تو عمران خان کے وژن ، نواز شریف کے اعلان اور پرویز خٹک کی منصوبہ بندی کے مطابق چترال یو نیورسٹی مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو گی۔ ایسا نہ ہوا تو سو شل میڈیا پر غیر متعلقہ لوگ غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے افواہیں پھیلاتے رہیں گے۔ اور اس پر بھارتی دانشور کا وہ قول صادق آ ئے گا کہ یہاں چا ئے والا سیاست اور کر کٹ پر بات کر سکتا ہے چا ئے بنانا نہیں جا نتا۔

Exit mobile version