ناہیدہ سیف ایڈوکیٹ میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے ڈکٹیٹر کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دونگا، میں اس ملک کی پیداوار ہوں اس ملک میں رہونگا،اس ملک میں دفن ہونگا،اس ملک کے غریبوں کے لیے اواز اٹھاتا رہونگا۔مجھے کوئی جلاوطن نہیں سکتاِِ۔ غیرت کا سبق بچپن میں والد نے انہیں سکھایا تھا،اور غریبوں سے محبت کا درس والدہ نے دیا تھا،ان کے چہرے پر بلا کا اعتماد تھا ڈر اس نے سیکھا ہی نہیں تھا، وہ ہمیشہ سے ایساہی تھا سچا ،کھرا ، نڈر،دو بات کرنے والا ،ٹوک بات کرنے والا،پھانسی کا پھندہ سامنے لٹک رہا تھا، جیلر سر تاریخ بنانے کا وقت أگیا،مسٹر عباسی سامنے سے یہ سیاہ پٹی ہٹا دو، تارہ مسیح جس نے اس رسی کو کھینچنا ھے اپنا سیاہ چہرہ جس پر چھوٹی چھوٹی أنکھیں جو اندر کو دھنسی ہوئی ہیں بند کرتا ہے اس کے سیاہ چہرے پر سفید دانت جو نیچھے کے ہونٹ کو دبائے ہوئے ہیں واضح نظر ارہے ہیں ِ چہرے کا رخ ادھر أدھر کرتا ہے ،یہ اونچی گردن ان جیسوں کے حقوق کی بات کرتے کرتے یہاں تک پہنچی ہے نا انصافی اور بربریت کی جو انتہا ہونے جا رہی ھے ، اس کی برادری،کی بات کرنے والا ،اقلیتوں کو انسان سمجھے والا پسے ہوئے طبقے کا بہادر لیڈر ،تارہ مسیح کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے تبھی تو اسکا وجود اس کا ساتھ نہیں دے رہی ، حکم عدولی کا مطلب سر قلم ، اور پھر کیا فرق پڑتا ہے وہ نہیں تو کوئی اور ا کے یہ کام سرانجام دے گا،بے دلی کے ساتھ اپنے کھردرے ہاتھوں کو أگے کرتا ہے،اور بھٹو امر ہو جاتا ہے۔ ان کے جنازے کو رات کی تاریکی میں دفنا کر وقت کے فرعوں اپنی ڈرائننگ روم میں بیٹھے اپنے حواریوں کے ساتھ ہنس رہے ہیں أگے پیچھے درباری ،چاپلوس داد دے رہے ہیں اور جھو ٹی دنیا کے جھوٹی شان والے حاکم داد وصول کر رہے ہیں،بھٹو جو ان کے لیے دہشت کا نام تھا ختم ہو گیا،تاریخ زہر ألود قہقہ لگا رہی ہے ان کی بیوقوفی پر، یہ جس کو تم نے رات کی تاریکی میں دفنایا ہے یہ صبح سورج بن کر طلوع ہو گا اور گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے تم پر حکومت کریگا تمہارا شائد نام ، نشان بھی باقی نہ رہے لیکن جیئے بھٹو کی صدا صدیوں تک سنائی دے گی ،تاریخ کا انتقام ایسا ہی ہوتا ہے، جس طرح وہ ظالم کو معاف نہیں کرتی اس طرح وہ کسی مظلوم کی قربانی کو بھی نظرانداز نہیں کرتی،شاعر مشرق علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس جاوید اقبال جو بھٹو کے قریبی دوست بھی تھے کہتے ہیں کہ جس دن بھٹو کو پھانسی دی گئی اسی رات ۲ بجے میں سویا ہوا تھا کسی نے زور سے میرا کمبل کھینچا میں ڈر سے اٹھ گیا سامنے بھٹو کھڑا تھا اور انگلش میں مجھ سے کہنے لگا دیکھا ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ۔تاریخ دان جب بھی تاریخ لکھے گا وہ بھٹو کو عظیم رہنما اور مظلوم اور ان کے قاتلوں کو ظالم ،أئین شکن اور قاتل لکھے گا۔ ڈکٹیٹر نے بھٹو کے خلاف ہر طرح کے ظلم ،ستم جھوٹی داستانین کیا کیا الزامات نہیں لگائے لیکن ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکاان کی لاکھ کوشش کے باوجود عوام کو بھٹو سے دور نہ کر سکے، افسوس کی بات ہے اور کتنی عجیب بات ہے ۹۰ ہزار جنگی قیدی اور ۵ ہزار مربع میل کا علاقہ دشمن سے خالی کرانے والے اور اندرا گاندھی کو سیاسی مزاکرات میں شکست تسلیم کروانے والے کو اس ملک میں اپنی فیملی سے أخری ملاقات کی اجازت نہیں تھی،جو لوگ مشرقی پاکستان کے بارے میں بھٹو پہ تنقید کرتے ہیں میں انہیں کہونگی کہ وہ شیخ مجیب ارحمان کے ۶ پوائنٹ نہ صرف پڑھ لیں بلکہ ان پر غور بھی کریں سب واضح ہو جائیگا۔ بھٹو نے کہا نہ تم نہ ہم صرف پا کستان،ان کے الفاظ کو بدل کر یہ افواہ پھیلائی گئی کہ أدھر تم ادھر ہم۔ زولفقار علی بھٹو اپنی قوم کے ہیرو ہیں باہر کے لوگ جو پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ پہلے بھٹو خاندان کے بارے میں پڑھتے ہیں دنیا میں ان سے منسوب اعزازات اس ملک کا سرمایہ ہیں، ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واچپائی جب پہلی دفعہ پاکستان ائے تو سب سے پہلے یہ پوچھا کہ بھٹو صاحب اپنی شیروانی کہاں سے سلواتے تھے حکمران سے لے کر عام ادمی تک سب بھٹو کی چھوٹی چیز سے لے کر بڑٰی چیز تک جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں،ان کے مخالفیں بھی ان کی سیاست کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جو لیڈر اپنی قوم کے ساتھ نیک نیتی سے چلتا ہے دنیا ان کو مانتی ہے۔ بھٹو نے اس قوم کو عزت نفس دی عزت نفس کا مطلب وہی سمجھ سکتا ہے جس میں خودداری ہوتی ہے جس طرح غلط کو غلط کہنے کی جرت ہر کوئی نہیں کر سکتا اس طرح کسی کو عزت نفس دینا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، سازشیں ہوتی ہے، منافق اور مکار وں کا ٹولہ اکٹھا ہو جاتا ہے و ہ کسی بھی لیول پر ہو، ان کی أپس میں بڑٰی گھٹ جوڑ ہوتی ہے ان کو پتہ ہوتا ہے کہاں ایک دوسرے کو ڈچ کرنی ہے کہاں ایک دوسرے کے ساتھ مکاری کرنی ہے کہاں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے کہا ں ایک دوسرے کو نیچھے دیکھانا ہے اور کہا ں ایک دوسرے سے کام نکلوانا ہے۔ زولفقار علی بھٹو پسماندہ علاقوں اور پسے ہوئے طبقے کا نجات دہندہ تھے ایک صحافی الیکشن کے دنوں میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا راستے میں ایک بوڑھا أدمی جھاڑو دے رہا تھا اس نے پوچھا چچا جی کس کو ووٹ دینا ہے جواب ایا بھٹو کو، بھٹو نے تمہیں کیا دیا ہے بھٹو نے مجھے شناخت دی میرا نام لیا ، صحا فی تھوڑا اگے ائے تو پیچھے سے اواز ائی بابو تم کسی کو اپنا نام دے سکتے ہو کہتا ہے یہ سوال مجھے بڑا عجیب لگا مڑ کے دیکھا اور کہا کیا مطلب ،اواز ائی بھٹو نے جاتے جاتے اپنا نام بھی مجھے دیا میں بھٹو ہوںِِِ۔ بھٹو غریب کی جھونپڑی میں ذندہ ہے روشن خیال کے گھر میں ذندہ ہے ہم سب میں ذندہ ہے یہ اقتدار کی نہیں نظریات کی جنگ ہے،سوچ کی جنگ ہے۔ یہ تیر کا نشان صرف انتخابی نشان نہیں ہے ایک ہسٹری ہے اس پر ٹھپہ لگانا صرف رائے کا اظہار کرنا ہی نہیں ہے یہ جیالے کا ااحتجاج بھی ہے ان کے لیڈر کو جس بیدردی سے شہید کر کے ان کی اواز کو دبانے کی جو کوشش کی گئی ان کا گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے اور بھٹو کے خون سے یہ وعدہ ھے کہ وہ ہر الیکشن میں ُٓںٓاااااااللل اپنا یہ جمہوری احتجاج قلمبند کرائیں گے۔ بھٹو کیا تھا ، یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، لیڈر ٹھا ، حکمران تھا یا پھر کوئی قلند ر]]>