Site icon Chitral Today

سق

درآمد گاؤں یا علاقے کے دانشمند بزرگ لوگوں کا جرگہ کرایا کرتا تھا۔ ان روایتی قوانین میں سقم بھی تھا اور بعض میں کچھ زیادہ سختی بھی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس دور کے سارے لوگ پر امن، پابند دستور اور شریف النفس تھے۔ ان میں بھی قانون شکن، شرپسند اور پست اخلاق کے حامل افراد موجود تھے البتہ ان کو لگام ڈالنے کے لیے جو روایتی قوانین تھے ان میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں تھی، اس لئے ان کا سماجی نظام مضبوطی کے ساتھ قائم تھا اور جرائم کم تھے۔ یوں کہیے کہ قدیم دستور کھو سماج کی شیرازہ بندی کا ضامن تھا۔ جس وقت سرکاری قوانین نے روایتی قوانین کی جگہہ لے لی اس دن سے کھو سوسائیٹی کا شیرزہ بکھرنا شروع ہوا۔ سرکاری قوانین میں سفارش اور رشوت کے ذریعے ہیر پھیر کی گنجائیش پیدا ہوگئی تو قانون شکنوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ سوسائیٹی کا شریف اور نظم و ضبط والا طبقہ حیران و پریشان رہ گیا۔ خاص طور پر عوام کے مشترکہ ملکیتی ورثوں اور اثاثوں کی حفاظت، ترقی اور استعمال سے متعلق رواجی قوانین ختم ہوگئے تو بہت بڑا نقصان ہوا۔ آج ہم آفات سماوی خاص کرکے سیلابوں کا جس بری طرح شکار ہو رہے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ ان روایات کا خاتمہ بھی ہے جن کے رو سے عوام اپنے قدرتی اثاثوں اور وسائل کی خود حفاظت کیا کرتے تھے۔ ہرگاؤں میں عوام کے  مشترکہ امور انجام دینے کے لیے “گرام”کا نظام تھا۔ جس کے اندر “یاردوئی” (امداد باہمی) اور “مون” ( لازمی رضاکارانہ خدمت)  مثلاً “سوسِری” (بھیڑ بکریوں کو باری باری چرانا)، لیشو والی ( گائے بیلوں کی رکھوالی) نہروں ، پلوں، سڑکوں کی سالانہ مرمت و حفاظت) کے شق تھے۔ چراگاہوں اور جنگلات کی حفاظت کا ضمنی قانون ” سق” کہلا تا تھا۔ عوام کا وہ گروہ جو کسی مخصوص چراگاہ سے استفادہ کرتا تھا اس چراگاہ کے ایک حصے کو چند سالوں تک درختوں اور جھاڑیوں کی کٹائی اور بکریوں کی چرائی کے لیے ممنوع قرار دیتے تھے۔ یہ فیصلہ گاؤں کے بزرگ آپس میں بیٹھ کر لیا کرتے اور جس کی پابندی سب پر یکسان لازمی تھی۔ اس مقررہ مدت کے دوران اگر کوئی فرد اس جگہہ سے کوئی جھاڑی یا درخت کاٹنے کی قانوں شکنی کرتا یا مال میویشی چراتا  تو اس پر بھاری جرمانہ لگایا جاتا تھا۔ یہ جرمانہ کم از کم دو بکروں کی صورت میں فوری طور پر اس شخص سے جبری وصول کیا جاتا اوران بکروں کو ذبح کرکے گوشت سب گھروں میں برابر برابر تقسیم کیا جاتا تھا۔اس جرمانے کےخلاف سرکار کے سامنے اپیل کرنے اور سرکاری مداخلت کی بھی گنجائیش نہیں تھی۔ اسی طرح جنگلوں سےایندھن کے لیے لکڑی بھی خاص مقدار میں لانے کی پابندی ہوتی تھی۔ اس مقررہ مقدارسے زیادہ لکڑی لانے والے کو بھی جرمانہ کیا جاتا اور لکڑی ضبط کرکے مسجد یا جماعت خانے کے استعمال کے لیے رکھدی جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی شخص” سق” کو توڑنے کی جرآت نہیں کرسکتا تھا۔ یوں چراگاہ کے مختلف حصوں کو باری باری سق کے تحت روئیدگی کا موقع دیا جاتا جس کی بدولت چراگاہیں آباد رہتی تھیں۔ اس سے جنگلی حیات کوبھی پنپنے کی مہلت مل جاتی تھی۔ عام طور پر شکار گاہیں علاقے کے خاص خاص قبیلوں کی ملکیت تھیں۔ اس قبیلے کے بزرگوں کی اجازت کے بغیر شکار کرنا ممنوع تھا۔ خلاف ورزی کرنے والے کو ایک بیل جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ شکار کا جانور ضبط ہوتا تھا اور بندوق بھی ضبط کرلی جاتی تھی۔ اس قانون کی بدولت شکارگاہیں بھی آباد تھیں۔ آئی بیکس کی نسل کی بہتات تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد محترم صبح سویرے شکار پر جاتے تو شام تک شکار مار لاتے تھے۔ آج اگر آدمی تین چار دن بھی پہاڑوں میں شکار کی تلاش میں گھومے پھیرے توبھی اسے شکار کا جانور نہیں مل سکتا ۔ 1975 میں سرکار نے ایک مبہم نوٹیفکیشن کے ذریعے چراگاہوں، شکار گاہوں اور ریور بیڈز کو سرکاری ملکیت قرار دے دیا۔ مگران کی حفاظت کا متبادل نظام نہیں لایا گیا۔ 1983 سے آغا خان رورل سپورٹ پروگام نے دیہی تنظیمات کا نظام متعارف کرایا۔ یہ نظام بھی عوامی چراگاہوں کی حفاظت کا کوئی آئیڈیا نہ دے سکا۔ شاید اس کی وجہ صدیوں سے رائج روایات کا عدم مطالعہ تھا۔ چراگاہوں، شکارگاہوں اور جنگلات کو سرکاری ملکیت قرار دینے کے بعد عوام نے ان کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا کیونکہ ان کا ملکیتی حق ان سے چھن گیا۔جس کے نتیجے میں جنگلی حیات لاوارث ہوگئی۔ محکمہ وائلڈ لائف نے بعض آہم شکار گاہوں کی نگرانی کے لیے واچرز مقرر کیا مگر ان کی کارکردگی صفر رہی۔ چور شکاریوں نے جنگلی بکریوں ( آئی بیکس)، مارخوراور دوسرے جنگلی جانوروں اور مقامی پرندوں کا صفایا کردیا۔ دوسری طرف غریب طبقہ کے افراد نے درختوں اور جھاڑیوں کی بے تحاشا کٹائی کا سلسلہ جاری رکھا اور بیچ کر اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کا ذریعہ بنا لیا۔ مزید تباہی بکریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے مچائی جب گوجر گڈریے اپنی بکریوں سمیت ان سرحدی وادیوں میں داخل ہوئے۔ یہاں کی سادہ لوح عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہر گاؤں میں دو دو گڈریے رکھے گئے اور لوگوں نے بکریوں کی تعداد بڑھا لی۔ اس طرح وقت کے گزرنے کے ساتھ پہاڑوں سے جنگل کا نام و نشان مٹ گیا اور جنگلی جانور بھی منظر سے غائب ہوتے گئے۔ اس وقت بالائی چترال کے پہاڑوں میں آئی بیکس ایک نایاب جانور بنتا جارہا ہے اور اس کی نسل خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اسی طرح صنوبر اور سُندَر کے قیمتی درخت پہاڑوں سے ناپید ہوا چاہتے ہیں، البتہ لوگوں کی زاتی زمینوں میں ان کےنو زائیدہ ننھے پودے جوبکریوں سے محفوظ رہتے ہیں پھرسے اگنے لگے ہیں۔ یہ پہاڑی جنگلوں کا متبادل نہیں ہوسکتے البتہ ان کی نسل زندہ رہ سکتی ہے۔ دنیا میں مضر گیسوں کے بے تحاشا اضافے کے سبب جو موسمی تغیرات رونما ہورہے ہیں ان کا رونا گزشتہ دوتین دھائیوں سے سنتے رہے تھے۔ ان سے ہونے والے جانی مالی نقصانات کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔گزشتہ دھائی کے دوران چترال میں برفانی جھیلوں کے ٹوٹنے اور بارشوں کی وجہ سے سیلابوں کا جو تباہ کن سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے عوام اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو احساس دلادیا ہے کہ اب بھی اگر غفلت بھرتی گئی تو نہ صرف چترال کی مقامی آبادی اور زرعی زمینوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ اس کا اثر پورے ملک پربھی پڑسکتا ہے۔ اس لیے اس مسلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔محدود چراگاہوں میں لاتعداد بھیڑ بکریوں کے چرنے کے نتیجے میں جھاڑیوں اور گھاس پھوس کا اگنا مخدوش ہوگیا اور مٹی بھر بھری ہوتی گئی جو معمولی بارش سے نیچے بہنے لگی۔ عوام کو احساس ہوگیا کہ بکری بھی سیلابوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔  پچھلے سال سے وسطی یارخون کے چند بڑے گاؤنوں یعنی بانگ پائین، بانگ بالا، پترانگاز، اچھو ہون اور پاوُر کی عوام نے بکریوں کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ تحریک تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ان گاؤنوں کے لوگوں نے اپنے گڈریوں ( گوجروں) کو اپنے علاقے سے فارع کردیا ہے جنہوں نے گزشتہ دس بارہ سالوں کے دوران چراگاہوں اور جنگلات کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے علاوہ اپنی پالتو بکریوں کا کم از کم نصف حصہ ابھی تک بیچ بھی ڈالاہے۔ سرکاری اداروں اور این جی اوز کو اس موقع سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کے لیے متبادل روزگار کا ذریعہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ یہ نقصان دہ جانور ان چراگاہوں سے بے دخل ہوسکے جہاں سیلابوں سے جانی اور مالی نقصانات کا شدید خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے ۔ مقامی حکومتوں ،متعلقہ سرکاری اداروں اور عوام کے اشتراک سے چراگاہوں اور جنگلی حیات کی حفاظت اور ترقی کے بارے میں کوئی ٹھوس  منصوبہ تیار کرنا پڑے گا۔  اس سلسلے میں وائلڈ لائف اور جنگلات کے محکموں کو پھر سے عوام کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ گزشتہ سال سے جنگلات کی حفاظت کے لیے نگہبانی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے یہ بھی نقائص سے بھرپور ہے۔ عوام کی رائے لیے بغیر اور ان کا تعاؤن حاصل کیے بغیرجگہہ جگہہ نگہبان مقرر ہوئے ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے تنخواہ وصول رہے ہیں۔ان کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کا کوئی نظام نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی وائلڈ لائف کےواچروں کی کارکردگی سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ چاہیے تھا کہ استفادہ کنندگان سے بالمشافہ ملاقات  اور مشاورت کے بعد نگہبان مقرر کئے جاتے تو عوام  کو اونرشپ کا احساس ہوجاتا اوراس پروگرام کی اہمیت جان پاتے۔ تپ ان کا بہتر تعاون حاصل ہوپاتا۔ عوام کی دلچسپی اورمدد کے بغیر کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ عوام میں اگاہی پیدا کی جائے کہ یہ پہاڑ، جنگل اور چراگاہیں ان کی اپنی ملکیت ہیں اس لیے وہ خود ان کی حفاظت کی فکر کریں۔ عوام اور جنگلات کے اداروں میں باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو جائے تو عوام پھر سے اپنے جنگلات اور  جنگلی حیات کی حفاظت کی ذمے داری احسن طریقے سے سنبھال سکتی ہیں۔  ]]>

Exit mobile version