وزیر اعظم اپر چترال کو ضلع کادرجہ دیکر عوام کے دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنائے
وزیراعظم نے چند اہم اعلانات بھی کئے۔جس میں جدید ہسپتال،یونیورسٹی اور2017میں لواری ٹنل کا افتتاح شامل ہیں۔میاں محمد نواز شریف چترال کے کئی دورے کرنے کے باجودچترالیوں کے تہذیب اور ثقافت کو سمجھنے سے محروم رہا۔حالانکہ ڈسٹرکٹ ناظم مغفرت شاہ نے اپنے تقریر میں واضح کیاکہ چترال میں تعلیم کا تناسب 75فیصداور کے پی کے میں تیسرے نمبر پر ہے۔اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے چترال کے لوگوں کو اردو سمجھنے اور سکھانے کی باتیں کی۔ پتہ نہیں وزیراعظم کے ذہن میں کیا بات تھی لیکن چترال کے عوام نے اسے چترالیوں کے ہتک قراردی۔اُنہوں نے کہا کہ اس سے پہلے دورے میں وزیراعظم نے ذرعی قرضوں کے معافی کا اعلان کیا تھا۔لیکن سپاس نامے میں ہونے کے باوجود اُنہوں کوئی اعلان نہیں کیا۔حالانکہ 2014 کے شدید سیلاب کی وجہ سے ہونے چترال کے غریب زمینداروں کے کھڑی فصلیں اور زمین دریا برد ہوگئے۔ حکومت کی طرف سے اُن کو خوراک اور مالی امداد مل گئی،اپر چترال کے بہت سے لوگ شلٹر میں رہ کر زندگی کے اوقات گذار رہے ہیں۔2014سے اب تک لوگوں پر قرضوں کے مارک آپ لگتے رہے ہیں اور غریب زمیندار بینک کے قرضے واپس کرنے قابل نہیں رہیں۔اُنہوں نے کہا وزیراعظم کو اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔بصورت دیگر یہ غریب لوگ سڑکوں پر نکلیں گے جس سے مالی اداروں اور حکومت کے لئے مسئلہ بنیں گے۔اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے نہر اتھک کے سلسلے اور موڑکہو روڈ کے سلسلے میں بھی کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی جبکہ نہر اتھک کا فیزبلیٹی رپورٹ بھی حکومت کو معلوم ہے۔ کوشٹ ۔مژگول پل وغیرہ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوا جبکہ مژگول پُل ایک جھولے کی صورت اختیار کرگئی ہے۔جو کسی بھی وقت جانی خطرے کا باعث بنے گا۔اس وجہ سے موڑکہو کے عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اپر چترال کو ضلع بنانے کی ضرورت سے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ چترال ایک وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اتنے بڑے رقبے کو کوئر کرنا مشکل ہے خاص کر یہاں کے عوام ہسپتال ،عدالت اور مختلف امور نمٹانے کے سلسلے چترال آنا جانا پڑتا ہے۔اس وجہ سے ہسپتال ،عدالتوں میں رش اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پی پی پی رہنماؤں نے کہا کہ یارخون ویلی،ریچ،تریچ سے غریب عوام کو بھاری رقم خرچ کرکے چترال آنا جانا مشکل بن گیا ہے۔اپر چترال کو ڈسٹرکٹ کا درجہ دینے سے بیروز گاری بھی ختم ہوگی اور لوگوں کے مشکلات میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔اور غریب عوام زیادہ اخراجات سے بچ جائیں گے۔ اُنہوں نے صوبائی حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ رابطہ کرکے اپر چترال کو ضلع کادرجہ دیکر عوام کے دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنایا جائے۔اور اس سلسلے میں ایم پی اے سلیم خان اور سید سردار حسین کوصوبائی اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کرنے ضرورت ہے۔]]>
My brothers from Mulkhow have finally talked about something which is worth discussing here. Let’s have a debate on whether or not Mastuj should be a district? May I request the editor to start a discussion forum wherein a productive debate should take place allowing us-the readers to share our opinions on the merits and demerits of any such proposal. My humble request to the readers is not to take this suggestion negatively as the benefit in such a debate I see is to be prepared to address all the questions to be raised by the Federal or Provincial govt. if we demand it. There are for sure apprehensions there e.g. a technical complication could arise in a way if the district Chitral authorities ask those govt. employees who belong to upper Chitral to leave and join the newly formed(whenever it is formed and if it is formed) District Mastuj relevant departments? Most of them would not like to go because their children are studying in better schools and they have built their houses in the town. In such a scenario; can a newly established district be run by Pashtun officers etc.?
We all want District Mastuj because we believe we qualify for that but is it really the case? A discussion between experts on such matters and the public (us) would help understand the real position. If the editor decides this is something worth discussing, I would like to request our brothers in the provincial bureaucracy to take part in the discussion mainly the PMS Officers. thank you. Saif.