شعیب سلطان خان کے ساتھ تیسری ملاقات
ایک ایسی ہستی کیساتھ دو بدو بیٹھنا جس نے صرف اور صرف گرے پسے غربت زدہ طبقے کی عملی خدمت کا جذبہ دل میں اور ذہن میں سمائے پاکستان سول سروس کی شاہانہ زندگی کو خیرآباد کہ دیا تھا اور ایسی بستیوں کی باسیوں کے درمیاں اپنا ٹھکانا بنا لیا تھا جن کے ساتھ بیٹھنا تو کجا ان کو چھونا بھی باعث ہتک گردانا جاتا رہا تھا۔ اس نے ایسے لوگوں میں ترقی کا شعور ڈالنے کی کوشش کی جو لفظ ترقی سے نابلد تھے اور جو کسی اجنبی کو نچلے طبقے کی سماجی اور معاشی حالت بدلنے کی کوشش کو مکمل طور پر شک کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی تھے۔ ان کی روایات اور قبائلی دستور ان کے لیے حرف آخر تھے۔
وہ اپنی روایات سے ذرہ بھر انحراف کرنے والے کوواجب القتل قرار دینے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ شعیب اپنا تصور ترقی کو ایسی جگہوں میں آزمانا چاہتے تھے جہاں عوام غربت کی لکیر سے پست زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ البتہ خدا نے ان کے سچے جذبے کی تسکین کے لیے منصوبہ پہلے سے تیار رکھا تھا۔ دأودزے میں ان کو پذیرائے نہ ملی۔ لیکن ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کی نقد شناس نگاہیں ایسے گوہر نایاب کی جستجو میں تھیں اور انہیں تلاش کرلیں۔ ا نہیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور چترال میں غربت کے مارے بے اختیار لوگوں کی حالت زندگی بدل کر ان کو معاشی استحکام دینے کی فکر تھی اور یہ منصوبہ شعیب سلطان خان ہی انجام دے سکتا تھا۔ شاید قارئین کو یاد نہ ہو، سن ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں چترال اورشمالی علاقہ جات میں کواپریٹیو سوسائٹیز بنوائی گئی تھیں اور امامت فنڈ سے ان کی مالی مدد کی گئی تھی۔ اس وقت بھی گراس روٹ لیول پر لوگوں کو معاشی خودانحصاری بذریعۂ اشتراکی کام کے حصول کا تصور کار فرما تھا۔ بدقسمتی تھی یا پروگرام یہاں کی کاشتکار اور گلہ بان عوام کے مزاج کے موافق نہیں تھا، اس لیے وہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا اور یہاں سے غربت دور ہونے کا نام نہیں لیا،بلکہ اور بھی اپنے بھیانک پنجے غریبوں کے سینوں میں گاڑ دیے تو شیعہ امامی اسمعلیوں کے امام ہزہائنس پرنس کریم آغاخان نے آغان فاؤنڈیشن کے ذریعے ایک پروگرام چلانے کا فیصلہ کیا جس کا نام اے کے آر ایس پی یعنی آغا خان رورل سپورٹ پروگرام رکھا گیا اور جس کی سربراہی جناب شعیب سلطان خان کو سونپ دی گئی۔۱۹۸۲ء سے گلگت میں اس کا آغاز ہوا۔ ۸۴۔۸۳ء میں چترال میں دفتر کھلا۔ بارہ سالوں تک شعیب اس کا سربراہ رہا۔ گلگت، بلتستان اور چترال میں ایسی کوئی جگہہ نہیں جہاں شعیب کا قدم نہ پہنچا ہو اور ایسا پسماندہ طبقہ نہیں جس کے ساتھ ان کی مٹی کی ننگی فرش پر نشت نہ ہوئی ہو۔ آج ان کا لگایا ہوا پودہ تناور درخت بن چکا ہے اور اپنے پھلوں سے غریبوں کا دامن بھر رہا ہے۔
آج یہ غربت زدہ عوام اپنی ترقی کا راز پا چکے ہیں۔ دیہی اور خواتین تنظیمات کے ذریعے اشتراکی کام کو ترقی کی اصل بنیاد جان چکے ہیں ۔بچت کے ذریعے اپنی مالی حالت کو استحکام دینے کی تگ ودو میں ہیں۔ آگے جاکر ان چھوٹی تنظیمات نے مل بیٹھ کر اپنی مقامی امدادی تنظیمات کی داغ بیل ڈالی۔ آج یہ مقامی امدای تنظیمات اپنے اپنے علاقوں کی معاشی، سماجی،علمی اورصحت کے شعبے میں ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ممبر تنظیمات کوہر طرح کی معاونت باہم پہنچانے میں سرگرم عمل ہیں” ۔ شعیب سلطان خان کی نگرانی اور رہنمائی میں 1982 سے شروع ہونے والا اے کے ار ایس کا نقشہ آج پورے جنوبی ایشیا میں رپلیکیٹ ہوا ہے۔
پاکستان کے اندر درجنوں آر ایس پیز بنے ہیں اور رورل آبادی کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علقہ جات اور چترال میں رورل سپورٹ پروگرام کی کامیابی کو اقام متحدہ نے بھی تسلیم کیا اور شعیب کی خدمات حاصل کرکے بھارت کے اترپردیش اور دوسرے صوبوں میں پروگرام چلایا گیا اور وہ بہت ہی کامیاب چلا۔ شعیب صاحب کا کہنا ہے کہ وہاں ان کو خواتین تنظیمات کے ساتھ کام کرنے موقع ملا جس سے پتہ چلا کہ دیہی ترقی میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ فعال رول پلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اپنی خوبصورت اور مفید زندگی کے چھیاسیواں برس کے ہونے کے باوجود اللہ کا یہ نیک بندہ پوری طرح متحرک ہیں اور اپنے پیارے لوگوں کوملنے ہزاروں کلومیٹر کا سفر خندہ پیشانی کے ساتھ طئے کرتے رہتے ہیں۔
آج کل چترال کے دورے پر تھے اور ہم یارخون کے دور افتادہ اور پسماندہ باسیوں کے لیے بھی وقت نکال ہی لیا ۔ 18 ستمبر کی صبح دس بجے آغا خان فاونڈیشن کا ہیلی کوپٹر انہیں اور اے کے آر ایس پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیرمین اور مبران کو لے کر وسطی یارخون کے خوبصورت گاوں پاوُر میں لینڈ کیا۔ ان کی صاحب زادی روحی بانو بھی ان کی ہمراہ تھیں۔ ۔ کمال یہ ہے کہ اس مرتبہ شعیب صاحب کو نہ صرف اس ناچیز کا نام یاد تھا بلکہ سابقہ عہدہ بھی یاد تھا۔ ایسے ملے جیسے کہ برسوں کے بچھڑے جانی یار ملتے ہیں۔ان کے چہرے پر وہی تازگی اور بشاشت جھلک رہی تھی۔بڑھا پے کا ان پر کوئی اثر نظر نہیں آرہا تھا ( ماشا اللہ)۔ ایسا لگ رہا تھا کہ صاحب موصوف برسوں بعد اپنے گھر پہنچے ہوں اور اپنے قریبی عزیزوں سے گلے مل رہے ہوں۔۔ انہوں ن سب سے پہلے یادگار پاور ہاوس پاوُر کا دورہ کیا اورکمیونٹی کے ہاتھوں تعمیرہونے والے اس بڑے پروجیکٹ کو مکمل دیکھ کربہت خوش ہوئے۔ یادگار منی ھائیڈرو پاور پروجیکٹ پاوُر یارخون سویس ایجنسی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ کوپریشن (ایس ڈی سی) کی فراخ دلانہ مالی امداد سے ، اے کے آر ایس پی کی رہنمائی میں کمیونٹی کے اپنے ہاتھوں مکمل ہونے والا پورے گلگت بلتستان اور چترال میں سب سے بڑا پروجیکٹ ہے جس کی پیداواری صلاحیت 850 کلو واٹ تک کی ہوگی۔ یہ پاور ھاوس پچیس کلومیٹر لمبی وادی کے جنوب میں بیرزوز گاؤں اور مشرق کی جانب شیچ گاؤں سے شمال مشرق میں کورکُن گاؤں تک کل سترہ چھوٹے بڑے گاؤنوں کے تقریباً 1200 گھرانوں پر مشتمل 8000 نفوس کوان کی ضرورت کے مطابق بجلی مہیا کرے گا۔ اس پاور ھاؤس کی تعمیر کے سلسلے میں سولہ دیہی تنظیمات (وی اوز )اور18 خواتین تنظیمات نے 2011 میں ایک کلسٹرتنظیم (یادگار کلسٹر پاوُر یارخون) تشکیل دے کر اے کے آر ایس پی کے سامنے اس پروجیکٹ کا خاکہ پیش کیا اور مدد کی درخواست کی۔ جس نے اپنے انجنئیرز کے ذریعے سروے کرایا اور تحمینہ لاگت کا تعین کیا اور سویس ایجنسی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ کواپریشن( ایس ڈی سی) سے رجوع کیا۔ ایس ڈی سی نے خطیر رقم کا عطیہ دیا اوریہ بڑا پروجیکٹ پانج سال کے عرصے میں تکمیل پا گیا۔ یادگار کلسٹر نے اے کے ار ایس پی کے توسط سے یادگار یوٹیلیٹی کمپنی (پبلک) لمیٹڈ کی بنیاد رکھی اور سکیورٹی اور اکسچینگ کمیشن آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ کیا تاکہ اس ایم پی ایچ کی تعمیر کے مرحلے کی تکمیل کے بعد اس کا انتظام اور دیکھبال کی ذمے داری اٹھا سکے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ شعیب سلطان کی رہنمائی میں بننے والی چھوٹی چھوٹی تنظیمات نے ملکر اپنی ترقی کا یہ سب سے بڑا منصوبہ بنایا اور اسے مکمل کر دکھایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یادگار یوٹیلیٹی کمپنی پبلک لمیٹڈ ہے اور ان 32 چھوٹی تنظیمات کے کل 1578 خواتین و حضرات اس کمپنی کے ممبرز اورمالک ہیں اوراب تک کل ایک کروڑ مالیت کے مساوی شیرز یعنی سو سو روپے کے ستر ستر شیرز مرد ممبران نے اور پندرہ پندرہ شیرز خواتین ممبران نے خریدے ہیں۔ شیرز کی فروخت ابھی کھلی ہے البتہ اس علاقے کے لوگوں تک کے لیے محدود رکھی گئی ہے۔ شعیب صاحب اور بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پھر نوغوردور کے اعظم لال کے مہمان خانے کے باغ میں کمیونٹی ممبران کے ساتھ دو گنٹھے کی میٹنگ کی جس میں جناب شعیب سلطان کی مدہم اور میٹھی گفتگو سے ایک مرتبہ اور لطف اندوزی کا شرف ملا۔ ان کی خلوص بھری ذرین رہنمائی حاصل ہوسکی۔ انہوں نے اپنی پہلی والی تاکید پھر سے دھرائی کہ اپنی دیہی اور خواتین تنظیمات ہمیشہ فعال رکھیں تاکہ تمہارے مکمل شدہ ترقیاتی منصوبے مستحکم رہیں اور تمہیں فائدہ پہنچاسکیں۔۔ خاص کرکے خواتین اور یوتھ کی بھر پور شرکت کے بغیر ہم ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر پاسکتے۔ انہوں نے اے کے آر ایس پی کے چیرمین بی او ڈی سے خواتین کی الگ ایل ایس او بنانے کی سفارش کی تاکہ معاشرے کا یہ طبقہ مردوں کے تسلط سے آزاد اپنے ترقیاتی امور انجام دے سکے۔ انہوں نے اس وادی کی دیہی تنظیمات کی ترقی اور بچت کا دیکھ کر ان کو مبارک باد دی اور کہا کہ آپ لوگوں نے ہزہائینس پرنس کریم کے ویژن کو مکمل فالو کیا اور اپنی معاشیات،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہیں۔ انہوں نے اپنا لوگو پھر سے دھرایا اور کہا کہ فعال تنظیم، اچھی بچت اور ہنر سیکھ کرہی آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس محفل سے چیرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز علی رتنسی اور خواتین ڈائریکٹرز شندانہ خان اور نصرت نصاب نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے مقامی کمیونٹی کے کردار کی بے حد تعریف کی اور یادگار کلسٹر کو رول ماڈل قرار دیا کہ جس نے اب تک کے ہونے والے منصوبوں میں سب سے بڑے منصوبے کو کامیاب بنایا اور کہا کہ وہ ملک کے دوسرے آر ایس پیز سے ملاقاتوں کے دوراں اس تنظیم کا اور اسکی کارکردگی کا حولہ دیں گے۔ شندانہ خان جو کمیونٹی انوسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ بھی ہیں نے سی آئی ایف سے خواتین تنظیمات کو گرانٹ اور قرض مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ بانگ ویلیج کونسل کے چیرمین اور ممبران بھی اس میٹنگ میں مدعو تھے۔ انہوں نے اے کے آر ایس پی سے مزید امداد کی درخواست کی تو شعیب صاحب نے ان سے کہا کہ عمران خان نے مقامی کونسلات کے لیے تیس عرب روپے جاری کرنے کا بتایا ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ میں نے اے کے ار ایس میں اپنی دس سالہ دور میں صرف ایک عرب کا فنڈ خرچ کیا تھا جس سے گلگت بلتستان اور چترال میں سینکڑوں منصوبے مکمل ہوئے تھے۔ آپ بھی اپنے بجٹ سے اپنے حلقوں کی ترقیات میں حصہ ڈا لیں۔ آپ کب تک اے کے ار ایس پی کے پیچھے پڑے رہیں گے؟ تو بیچارے کونسلرز کا کہنا تھا کہ ہر ویلیج کونسل کے لیے شروع میں تیس تیس لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ پھر اس کا پچاس فیصد کاٹا گیا۔ باقی ماندہ پندرہ لاکھ کے لیے منصوبے تجویز کئے گئے ہیں لیکن آج تک ان کی منظوری بھی نہیں آئی ہے۔ جب منظور آ بھی جائے تو یہ پیسہ ٹھیکا داروں کے ہاتھ میں خرچ ہوگا اور عوام کے حصے میں وہی چار آنے ہی آئینگے۔ جب کہ بارہ آنے کہیں اور چلے جائیں گے۔ یہاں اس بات کا زور شور سے ذکر کیا گیا کہ یہاں کی نمائیندہ سول سوسائیٹی کی تنظیم ایل ایس او پنار کے پلیٹ فارم سے متفقہ قرار داد کے ذریعے سے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹھیکا داری نظام ختم کرکے یہ دہی ترقیات کے فنڈز مقامی کمیونٹی ارگنائزیشن کے ذریعے انجام دیے جائیں تاکہ کمیشن اور سی اینڈ ڈبلیو کے خربرد سے نجات حاصل ہو لیکن حکومت ہماری ایک نہیں سنتی۔ یوں عوام کا حق ان کو حاصل نہیں پا رہا ہے۔ شعیب صاحب نے کہا کہ یہ تمہاری کمزوری ہے کہ تم اپنا حق حاصل نہیں کر پا رہے ہوجس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں تاہم ہم آپکی بات بڑے لوگوں تک پہنچانے کی کو شش کریں گے۔ اس جلسے میں کمیونٹی کے افراد نے کھل کر اپنے خیالات مہمانوں تک پہنچائے۔ خواتین ممبران کی طرف سے مسز اسیرؔ، مسز منظور،مسزر محمد مراد نے اپنی آرا کا اظہار کیا اور اے کے آر ایس پی کے کردار کو سراہا کہ اس این جی او نے خواتین کو با اختیار مفید شہری بنانے میں لیڈنگ رول ادا کیا ہے۔ مرد حضرات میں نیک بخت خان چیرمین ویلیج کونسل، تعلیم شاہ ویلج وائس چیرمین ، سید قاسم شاہ ویلیج کونسلر، سلطان حیات ویلیج کونسلر، محمد خان کسان کونسلر،وزیر پناہ چیرمین پروجیکٹ کمیٹی، ژانویار خان وائس چیرمین یاد گار کلسٹر،محمد علمگیرویلیج کونسلر اور کئی دوسرے شراکاء نے بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ ماسٹر غیرت مراد آفس سکرٹری اور ممتاز علی خان منیجر یادگار کلسٹرنے نظامت کے فرائض دیے۔ راقم الحروف نے مہمانوں کو علاقے اور یادگار ھایڈرو پور پروجیکٹ اور دوسرے امور سے متعلق بریفنگ دی۔ دیہی علاقوں کی معاشی ترقی میں جناب شعیب سلطان خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ شاہ ابوالمنصور ایریا منیجر بونی، امتیاز احمد پروجیکٹ منیجر ایم پی ایچ پروجیکٹ فیس ٹو اور شکیل حسین نے اے کے آر ایس پی چترال کی نمائیندگی کی اور معزز مہمانوں کے سوالات کے جواب دیے۔۔ اے کے ار ایس پی کے ہائی کمان کے ساتھ کمیونٹی کی یہ آہم اور کامیاب نشست ساڑھے بارہ بجے دن اختتام پذیر ہوئی۔