تین خوب صورت قصبے
Dr Inayatullah Faizi[/caption] خوبصورت قصبے ہیں مگر غلط جگہوں پر واقع ہیں اور ضلع چترال میں ہیں اور ان قصبوں کی دوسری بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں 2010 کی جگہ 2015 میں سیلا ب آیا اگر 5 سال پہلے سیلاب آتا تو ایک سال کے اندر بحالی کا کام شروع ہوتا 2015 کے سیلاب کو پورا سال گذر گیا سیلاب زدہ قصبوں کی بحالی کا کام شروع نہیں ہوا ایوان کی زرخیززمین کا ایک حصہ سیلاب میں بہی گیا جو بچا تھا وہ اب سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کی زد میںآ یا ہے بنجر جگہ کو چھوڑ کر دھان ، گندم اور جوار کے کھیتوں سے سڑک گذاری جارہی ہے ریشن کا آرسی سی پل اور 4 کچے پل سیلاب میں بہہ گئے ، 4 میگا واٹ کے بجلی گھر سیلاب برد ہوا سال گذر گیا کسی نے پوچھا بھی نہیں کو شٹ کا پل دریا برد ہوا بمباغ کی نہر سیلاب میں بہہ گئی سیب ، انگور اور ناشپاتی کے باغات متاثر ہوئے فوجیوں نے عارضی پل بنا یا وہ بھی چار قیمتی جانوں کو لیکر دریا برد ہوا ایک این جی اونے دریا کے اوپر چےئر لفٹ لگایا وہ بھی خراب پڑا ہے اب گاؤں کے بچے اور بچیاں 2 کلو میٹر کاراستہ طے کر نے کے لئے 46 کلومیٹر سفر کرتی ہیں کوشٹ کی آبادی 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ڈسڑکٹ کونسل کا ممبر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا ہے لیکن صوبا ئی حکومت میں پی ٹی آئی والوں کی بات بھی کوئی نہیں سُنتا آج میرے پاس ایون کے محمد علی جناح لال کا خط بھی ہے خط میں لکھا ہے ’’ روز نامہ آج میں عوامی مسائل کا ذکر چار مختلف صفحوں کے اندر جگہ پاتا ہے مگر مجھے ادارتی صفحہ پسند ہے میں اُن لوگوں میں شامل ہو ں جنکو مرنے سے پہلے ’’ پل صراط ‘‘ سے ہوکر جنت میں جانے کا باربار اتفاق ہوا ہے ایون سیاحوں کی جنت ہے اور سید آباد پل کو پُل صراط کہا جاتاہے اس پل کی جگہ آر سی سی پُل کا منصوبہ کئی بار بنا ایک بار جاچانی حکومت نے یہاں آرسی سی پل کے لئے فنڈ زفراہم کئے مگر یہ فنڈ کسی اور جگہ منتقل کئے گئے دریا کے اس پا ر ایوان کا جنت نظیر گاؤں ہے اور دوسری طرف سپورٹس سٹیڈیم بن رہا ہے نئی یونیورسٹی بن رہی ہے درمیاں میں پُل صراط آتا ہے ایون کو 2015 کے سیلاب نے تباہ کردیا تھا اب خیبر پختونخوا کی حکومت ہماری بچی کچھی زمینات کو 70 فٹ چوڑی سڑک کے لئے برباد کررہی ہے حالانکہ بنجر جگہ سے سڑک گذرانے کی وسیع گنجائش موجود ہے اگر قانون میں بنجر جگہ کو چھوڑ کو دھان ، گندم اور جوار کے کھیتوں سے سڑک گذارنے کی اجازت ہو تو ہم بھی اجازت دینگے اگر قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تو عوام کبھی اجازت نہیں دینگے ‘‘ ریشن وہ قصبہ ہے جہاں کے لوگوں نے بڑی اُمیدوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے امیدوار ریٹا ئرڈ بیور وکریٹ رحمت غازی خان کو ووٹ دیا موصوف کا شمار پی ٹی آئی کے اہم لیڈروں میں ہوتا ہے ضلعی تنظیم کے کوار ڈینٹر بھی رہے ہیں لوگوں کی توقع یہ تھی کہ صوبائی حکومت ضلع چترال میں سیلاب زدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کا کام ریشن سے شروع کرے گی جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا مگر حکومت نے ایک سال تک ریشن کے لوگوں کا حال نہیں پوچھا ریشن میں ایک پائی کاکام بھی نہیں ہوا کچھ اس طرح کی توقعات اور اُمیدیں کوشٹ کے عوام نے بھی صوبائی حکومت سے اُمیدوں کا رشتہ ناطہ قائم کیا تھا ان اُمیدوں کا انجام بہت افسوس ناک ہوا ضلع چترال میں 40 مقامات پر پُل ، 26 مقامات پر سڑکیں ، 18 جگہوں پر نہریں اور 13 واٹر سپلائی سکیمیں 2015 کے سیلاب میں تباہ ہوگئی تھیں پاک فوج نے ابتدائی ریلیف کے کام کئے جوابتدائی تین مہینوں میں مکمل ہوئے تھے ان میں سے کوشٹ کا پل 5 ماہ بعد پانی میں بہہ گیا وفاقی حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے کوئی پیکچ نہیں دیا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ چترال کے موقع پر بھی ان کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی کہ صوبائی حکومت نے سیلاب زدہ انفراسٹرکچر کی بحالی سے انکار کیا ہے اگر یہ بات ان کے علم میں لائی جاتی تو وہ یقیناًبڑی سڑکوں کے ساتھ متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے بھی ایک پیکچ کا اعلان کرتے وزیراعظم کے علم میںیہ بات بھی نہیں لائی گئی کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سیلاب اور زلزلہ متاثرین کی بحالی میں ناکام ہوچکی ہیں اب وقت آگیا ہے کہ جنرل مشرف کی دونوں با قیات کو ختم کر کے بحالی کا کام ضلعی انتظامیہ کو دید یا جائے ایون، کوشٹ اور ریشن کے قصبوں کی حالت زار پر آج دو آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں خیبر پختونخوا کے یہ خوب صورت قصبے اگر 2010 کے سیلاب میں متاثر ہوتے تو ایک سال کے اندر ان کی بحالی کا کام مکمل ہوجاتا 2015 کے تباہ کن سیلاب کے ایک سال بعد بھی بحالی کا کام شروع نہیں ہوا اگروفاقی حکومت نے اس کے لئے خصوصی پیکچ نہیں دیا تو سال گذرنے کے باوجود بحالی کا کام شروع نہیں ہوگا ایون، بمبورت روڈ بھی وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے البتہ بنجر جگہ کو چھوڑ کر لہلہاتی فصلوں اور زرخیز کھتیوں کو 70فٹ چوڑی سڑک کے لئے برباد کرنا صوبائی حکومت کے ماتحت محکمے کی نااہلی ہے]]>