Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

خان صاحب یارخون میں

شیر ولی خان اسیر

ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک عادت قلیولہ کی پڑ گئی ہے وہ بھی دن بارہ بجے اور دو بجے کے درمیان۔ میں 29 جون 2016 کی دوپہر قلیولہ کا لطف اٹھانے کے لیے لیٹ ہی گیا تھا کہ فون کی گھنٹی بول اٹھی جو عموماً دہلیز میں پڑا رہتا ہے۔ بہو بیٹی نےفون ریسئیو کیا اور اطلاع دی کہ شاہ ابوالمنصور ایریا منیجر اے کے ار ایس پی فون پر ہے۔ اس بے وقت کا فون  قطعاً پسند نہیں آیا تاہم اٹھنا پڑا اور برخوردارم منصور سے ہمکلام ہوا۔

منصور بھی بے حد شریف اور خاطر توضع سے بھر پور آدمی ہیں۔ اے کے ار ایس پی کا کوئی دوسرا صاحب ہوتا تو شاید میں اپنا قیلولہ برباد نہ کرتا۔ مختصر یہ ہے کہ منصور صاحب کے ساتھ دوسرا میرا پیارا برخوردار محمد صالح اے اے سی مستوج بھی لائین پر تھے۔ دونوں کی گزارش یہ تھی کہ عمران خان صاحب چیرمین تحریک انصاف پاکستان ابھی کچھ دیر پہلے بذریعہ ہیلی کوپٹربجانب بروغل روانہ ہوچکے ہیں۔ بروغل سے واپسی پر وہ پاوُر یارخون میں اتریں گے جہاں وہ  سونامی شجر کاری کا معائینہ کریں گے اور ممکن ہے کہ یادگار منی پاور پروجیکٹ بھی دیکھیں گے جو اپنی نوعیت کا پہلا بڑا پاور پروجیکٹ ہے جو مقامی کمیونیٹی کی نگرانی میں سویس ایجینسی فار ڈیویلپمنٹ اینڈ کواپریشن اور ورلڈبنک کی فراخدلانہ مالی امداد اور اے کے ار ایس پی کی تیکنکی مدد سے مکمل ہوچکا ہے۔

چونکہ محمد صالح صاحب اور منصور اس وقت چوئینج سے گزررہے تھے اور ان کو پاوُر پہنچنے میں ڈھائی تین گھنٹے لگ سکتے تھے لہذا  مجھے خان صاحب کو ریسئیو کرنا تھا۔ اگرچہ میں خان صاحب کی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا تاہم ان کی پالیسیوں کا حامی رہا ہوں نیز یادگار منی پاور پروجیکٹ  میں بحیثیت سربراہ تعمیر کمیٹی  اور ڈائریکٹر یادگار یوٹیلیٹی کمپنی کے  اور سب سے بڑھ کر اپنی روایات کے حوالے سے یہ میرا فرض بنتا تھا کہ میں اپنے علاقے میں آنے والے معزز مہمان کا استقبال کروں۔ ایسے وی وی آئی پی مہمان کی حیثیت سے خان صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے چترال کے سب سے آخری شمالی وادی بروغل اور یارخون کی عوام سے ملنے  کا پروگرام بنایا جسے میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

ہیلی پیڈ میرے گھر سے کوئی چھہ کلومیٹر شمال میں گاوں پاوُر کے نواح میں واقع ہے اسے بھی بجلی گھر بنانے والے یادگار کلسٹر نے بنایا ہے تاکہ ڈونر حضرات کی آمدورفت میں آسانی ہو۔ میں جب ہیلی پیڈ پہنچا تو وہاں پولیس کے جوانوں کے علاوہ محکمہ جنگلات کے اہل کار اور چند افراد گاوں والے تھے۔ خان صاحب کی آمد کی شنیدہ خبر 30 جون کی تھی۔ ان کے پروگرام کی اچانک تبدیلی کا علم  علاقے کے لوگوں کو نہیں تھا۔ اس لیے عوامی اجتماع نہیں تھا اور نہ ان کے جلسہ کے لیے کوئی انتظام  تھا اور نہ ان کی پارٹی کے کسی معتبر کارکن کو موقع پر موجود پایا۔ میں نے جلدی جلدی اپنی کمپنی کے کارکنوں کو ہدایت دیدی کہ چند کرسیاں قریب کہیں لگاکر مہمانوں کے لیے تیار کریں۔ ان کے شایان شان انتظام اس مختصر ترین وقت میں ممکن نہ تھا۔

جنگلات والوں سے پوچھا تو ان کا کہنا تھاکہ ان کا کام نیا لگایا ہوا جنگل خان صاحب کو دکھانا ہے اور بس، جو انہوں نے اس دکھاوے کیلیے ریور بیڈ پر لگایا تھا جو کسی بھی وقت دریائے یارخون کے کٹاو کا شکار ہوسکتا ہے۔ ایسے فضول تجربے ماضی میں بھی کئے گئے تھے۔ آج ان کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اور ان کی صوبائی حکومت کی شجر کاری مہم قابل قدر ہے جو اس علاقے کو سیلابوں سے اور پہاڑوں میں بچے کھچے ذخائر برف کو مزید پگھلنے سے بچا سکتی ہے، بشرط کہ یہ پودے پہاڑوں کے ڈھلانوں میں لگائے جائیں۔ ہم نے اس قسم کی جنگل کاری پر اعتراض کیا کہ بھئی یہ دریا کے کٹاو کا شکار ہوسکتا ہے تو خان صاحب کے ہمراہ ایک صاحب (جو شاید فارسٹ کنزرویٹر تھے) نے فرمایا کہ جنگل دریا کے کٹاو کو روک لے گا۔

غالباً ان صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آج سے سو سال پہلے یہ ریور بیڈ گھنا جنگل ہی تھا جسے گلیشر پھٹنے کے باعث دریا یارخون میں آنے والی طغیانی ( جسے چترال میں چٹی بوئے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) نے تباہ کر ڈالا تھا۔ خان صاحب کا ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے سے صرف چند منٹ پہلے اے اے سی مستوج مسٹر محمد صالح اور مسٹر منصور ایریا منیجر بھی پہنچ گئے اور ایک دو صفحے کی تحریر مجھے تھماتے ہوئے کہا گیا کہ یہ سپاس نامہ 26 مارچ 2016 کی  چیرمین تحریک انصاف کےمتوقع دورے کے موقع پر لکھا گیا تھا، یہی پیش کریں۔ خان صاحب جب ہیلی سے اترے تو ہم ان کو ملنے آگے بڑھے تو پائیلیٹ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ہمیں آگے جانے سے روکا اور بتایا کہ خان صاحب کوئی نجی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ ہم نے پروٹوکول کا لحاظ رکھا اور جب وہ اپنی نجی تصویر کشی سے فارغ ہوئے تو ان سے مصافحہ کیا اور خوش آمدید کہا۔

جب میں نے اپنا مختصر تعارف کرایا کہ میں محکمہ تعلیم کے پی کے کا ریٹائرڈ پرنسپل ہوں تو خان صاحب نے پوچھا، “آپ کہاں کے ہیں؟” ان کو شاید یقین نہیں آیا تھا کہ چترال کے اس دور افتادہ اور پسماندہ وادی یارخون میں بھی کوئی تعلیم یافتہ موجود ہو گا۔ خان صاحب کی رفتار تیز تھی اور توجہ کم، اس لیے زیاد گفتگو سے گریز کیا۔ یہاں ہر کسی کی یہ کوشش تھی کہ خان صاحب کے سامنے’ پیش پیش’ رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو اے کے ار ایس کی گاڑی میں بٹھا کر یوں بھاگا لے گئے کہ ہم اپنی کھٹارا گاڑی لے کر ان سب کے پیچھے پیچھے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے سیدھا یادگار پاور ھاوس کا رخ کیا اور جب میں ان کے پیچھے پیچھے گاڑی دوڑاتا ہوا پہنچا تو اے کے ار ایس پی کے” نو خیز اور نو وارد” اہل کار ان کو بریفنگ دے رہے تھے  جب کہ سینئیر آدمی فوٹو گرافی میں مصروف تھا۔ حالانکہ بریفنگ کا کام میرا تھا کیونکہ گزشتہ پانج سالوں سے میں اس پروجیکٹ کا والنٹیئر سربراہ رہا ہوں۔

تاہم خان صاحب کے استفسار کے دوران مجھے آگے بڑھ کر ان کے سوالات کا جواب دینے میں تھوڑی ” ھٹ دھرمی” کا مظاہرہ کرنا پڑا کیونکہ نونہالان قوم کو ہم جیسے فرتوت شہریوں کا لحاظ ہرگز نہیں تھا۔ خان صاحب نے اس عوامی پروجیکٹ کی لاگت کا سن کر بڑا خوش ہوا اور کہا کہ یہ تو بہت کم لاگت پر بن گیا ہے۔ میں نے بتایا کہ اس میں عوام کی رضاکارانہ خدمت اس کے علاوہ ہے۔ خان صاحب نے استفادہ کنندگان کی تعداد، علاقے کی وسعت اور بجلی کے ٹیرف کے بارے میں بھی پوچھا۔ ہم نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ وادی یارخون کے مرکزی 16 گاونوں کے کوئی پچیس کلومیٹر پر پھیلے ہوئے علاقے کے 1400 گھرانوں کو بجلی دے گا اور ہم نے بجلی کا ریٹ 5 روپے یونٹ رکھا ہے۔ اس پر عمران صاحب کو اس کی نگہداشت کی فکر ہوئی کہ اتنی سستی بجلی دینے سے اس کی دیکھبال کا خرچ کہاں سے آئے گا؟ تو ہم نے عرض کیا کہ کمیونٹی نے ایک کروڑ روپے جمع کیا ہوا ہے اور آپ جیسے حضرات سے انڈومنٹ فنڈ میں عطیہ دینے کی امید رکھتی ہے۔

خان صاحب نے پرجوش انداز میں کہا کہ “یہ بہت ہی معقول بات ہے ۔ایسے کاموں میں ضرور حصہ ڈالنا چاہیے”۔ پاوُر کے چھوٹے سے پولو گراونڈ میں مختصر جلسہ کے لیے واپس دوڑ لگانی پڑی۔ کسی نے خان صاحب کے پرٹوکول آفسر سے کہا کہ یہ لوگ بھاگتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں، واپس پولو گراونڈ کیسے پہنچ پائیں گے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ “ویسے ہی بھاگتے ہوئے”۔ ہاں ہم یہاں بھی پیچھے رہنے والوں میں سے ہوئے کیونکہ عمر کا تقاضا ہی ایسا تھا۔ جب سادہ سی جلسہ گاہ میں پہنچے تو جو کرسیاں میری ہدایت پر لگائی گئی تھیں ان پر پھر سے “نونہالان قوم اور کونسلران گاوں برانجمان تھے۔ اے اے سی صاحب نے اپنی کرسی میرے لیے چھوڑ دی تو میں نے منع کرتے ہوئے کھڑے کھڑے جلسے کا آغاز کرایا۔ اے سی صاحب سے تلاوت کروائی اور خود سٹیج سکرٹری کا فرض سنبھالااور لکھا لکھایا سپاس نامہ بھی پیش کیا جو نہ صرف زبان کی اغلا ط سے لبریز تھا بلکہ املا بھی دوسری جماعت کے بچے کی تھی۔ سپاس نامہ پڑھتے ہوئے مجھے اپنی اس غلطی کا احساس ہوا جب میں نے اپنا تعارف بطور پرنسپل کرایا تھا۔ اگر مجھے وہ سپاس نامہ ایک نظر دیکھنے کا موقع ذرا پہلےملا ہوتا تو شاید میں تعارف کرانے کی غلطی نہ کرتا۔ بہر حال خان صاحب کو اس قسم کی باریک بینی سے وہ تحریر پڑھنے کا دوبارہ موقع ملنا مشکل ہے۔ البتہ جو وعدے ہم سے کیے ہیں ان پر عملدرآمد کرانے کے لیے شاید اپنے سکرٹری سے کہہ دیں گے۔

ہماری گزارشات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان صاحب نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اس پورے علاقے کو سیلابوں سے بچانے کے لیے عربوں کا فنڈ درکار ہے جو صوبائی حکومت کے پاس نہیں البتہ وہ ڈونر تلاش کریں گے۔ جہاں تک پچھلے سال کے سیلاب میں ٹوٹے پلوں اور بجلی گھر کا تعلق ہے وہ  پلوں کی مرمت کروادیں گے اور بجلی گھر میں جو کمی رہ گئی ہو وہ پورا کرائیں گے نیز ھائر سیکنڈری سکول بانگ کو سٹاف بھی دیں گے۔ خدا کرے کہ صوبائی حکومت ان کے ڈائریکٹیوز پر جلد از جلد عملدرآمد کروالے۔

You might also like
2 Comments
  1. Zahiruddin says

    Sir, you did your job to the best of your capacity.Now it is up to the leaders.Let see what they are going to do for the area.

  2. Dr.Zubeda Sirang says

    Zabardast!
    An interesting article spiced with spontaneity, wit and humor 🙂

Leave a comment

error: Content is protected!!