بانگ سے بلتستان
شیرولی خان اسیر
یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے سفر سکردو، بلتستان کی، جسے دوستوں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔ میں نہ مستنصر حسین تارڑ ہوں اور نہ چترال کے عنایت اللہ فیضیؔ جو لکھیں تو میٹھاس میں لپٹی ہو۔ کہیں چٹخارے دار تو کہیں شکر ریز، تفصیلات سے لبریز، دانائی میں مغنی خیز، فلسفہ کی گتھی میں بند، اور سب سے بڑھ کر زبان و بیان ، یہ ساری چیزیں مجھ میں کہاں۔
اس لیے یہ مت سمجھیں کہ میں کوئی سفر نامہ لکھ رہا ہوں اور یہ کہ میں کوئی اردودان ہوں۔ 30 ستمبر2013 کو چترال میں ایل ایس اوز یوتھ کنونشن تھا جس میں ہماری شرکت ضروری تھی۔ ہم نے ۲۹ تاریخ کو امیر محمد صاحب ،فوکس انٹرنیشنل کے ضلعی سربراہ کی گاڑی میں اپنے آپ کو چترال پہنچانا مناسب سمجھا کیونکہ سردست یہی کچھ ممکن تھا۔چار سواریوں کے لیے بنی گاڑی میں ہم چھ بندے سوار ہوئے تو خود اندازہ لگایے کہ سواریوں کا کیا حال ہوگا۔ خیر! امیر محمد صاحب کو سب سے زیادہ سینڈویچ ہونا پڑا۔ وقت کم تھا۔ ساڑھے تین بجے میرے گھر (لغل آباد) سے نکلے۔ مستانہ استاد کو کچھ زیادہ ہی ایکسلیٹر پر دباؤ ڈالنا پڑا اور ہم گویا ہوا کی دوش پر سوار ہوئے جیسا کہ نئی نویلی کرولا کار موٹروے پر دو ڑرہی ہو۔ فرق اتنا تھا کہ موٹروئے کی سواری کو نیند کے مزے لینے سے کوئی نہیں روک سکتا، جب کہ یہاں ہم پینڈولا بنے ہوئے تھے۔
مستانہ استاد نے آج سارے ریکارڈ توڑ کر ہمیں محض پونے چار گھنٹے میں پامیر ہوٹل چترال کی پارکنگ میں اتار دیا تھا، حالانکہ تیز رفتار گاڑی میں کم از کم چھ گھنٹے کا سفر ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ان سے ذرہ بھر بھول چوک نہیں ہوئی۔ صبح پہلی ملاقات میں فضل مالک صاحب نے ۵ تاریخ کو سکردو روانگی کا پیغام سنادیا جہاں ۷اور ۸ اکتوبر کو دو روزہ ایل ایس اوز یوتھ کنونشن میں شرکت کرنی تھی۔ میری کل والی تھکاوٹ ابھی باقی تھی کہ دوسرے لمبے سفر کی نوید سنائی گئی۔ میرے چہرے سے ٹپکنے والی پژمردگی کو بھانپتے ہوئے کہنے لگے، کوئی زبردستی نہیں، اپنی جگہ اپنے منیجر کو بھیج سکتے ہیں۔اس بات پر ابھی غور کرنے ہی والا تھا کہ مالکؔ صاحب نے میری کمزور پہلو پر حملہ کردیا اور کہا کہ ڈاکٹر فیضیؔ بھی اس کارواں میں شامل ہیں۔چونکہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا ساتھ گردش زمانہ کے ہاتھوں عرصے سے چھوٹ چکا تھا اور لاکھ خواہش کے باوجودموقع نہیں مل رہا تھا کہ چند لمحے ان کی محفل میں گزر جائیں اورماضی کی یادیں تازہ ہوں۔ویسے بھی فیضیؔ کے ساتھ چند روز بتانے کا شوق کس کو نہیں ہوگا؟ مجھے مالکؔ صاحب سے کنونشن کے اختتام تک سوچنے اور فیصلہ کرنے کی مہلت مانگنی پڑی۔۳ بجے کنونشن ختم ہوا اور ہم سے سکردو کنونشن کے لیے ناموں کے اندراج کا تقاضا ہوا تو مجھے اپنا نام بھی شامل کاروان کرنا ہی پڑا۔
قارئین سے معذرت! میں موضوع سے ہٹ گیا تھا۔ ۵ اکتوبر ہماری روانگی کی تاریخ تھی۔مجھے اور مس ناہیدہ زمان ( یوتھ ممبر ایل ایس او پُنار اور میری نواسی) کو مستوج سے کارواں کا حصہ ہونا تھا۔ میں اپنی عمربھر کی پالی ہوئی عادت پر مجبور وقت کی پابندی کرنے کی کوشش میں صبح اپنی گاڑی خود ہی چلاتے ہوئے بغیر ناشتہ کیے بانگ سے مستوج پہنچا۔ اگرچہ مستوج سے روانہ ہونے کا وقت مقرر نہیں تھا ،لیکن گلگت پہنچنے کے لیے ۹ بجے تک مستوج سے نکلنا ضروری تھا اور یہ وقت چترال سے چلنے والے قافلے کے لیے بھی مناسب تھا۔ میرا اندازہ نا درست نکلا۔ چترال سے آنے والے مندوبین کا ہراول یعنی منیجر آئی ڈی، فضل مالکؔ اور ڈاکٹر فیضیؔ کی گاڑی دس بجے مستوج پہنچی اور ان سے جب میرا رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس گروپ کے سرکاری رکن اے اے سی مستوج مسٹر محمد صالحؔ صاحب اسی وقت کوشٹ سے روانہ ہوچکے تھے، نیز دو کوسٹر اور ایک چھوٹی گاڑی چترال سے نکلی تھیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ ہمیں ان کا انتظار قساڈو آفس مستوج میں منیجر دلِ مراد کے مہمان کے طور پر کرنا پڑا۔ دلِ مراد نے میز چائے، بسکٹ اور پھلوں سے سجادیا اور مالک صاحب نے زادراہ کی تھیلی کھولی تو موٹی سی ’ ٹیکی‘ ( چترال کی روایتی سینڈویچ جو خمیر کے بیچ بھنا ہواگوشت ، پنیر، اخروٹ؍بادام کا کوٹا ہو امغز وغیرہ ڈال کر بیکر میں پکایا جاتاہے) برآمد ہوئی تو میری اشتہا بھی تیز ہونے لگی حالانکہ میں نے دخترم ڈاکٹر زہرہ کی رہائش گاہ میں ڈٹ کر ناشتہ کیا تھا اور جس نے میرے پیٹ کو بھی کافی متاثر کیا تھا۔ٖفیضی صاحب اور مالکؔ صاحب نے ان کے ساتھ خوب انصاف کیا۔۱۲ بجے صالح صاحب پہنچے اور چائے پی تو ہم سوئے گلگت چل پڑے۔ہم چاروں کی گاڑی کے سٹرنگ پر ڈرائیور سید غفور تھے جو بے حد ملنسار اور خدمت گار آدمی ہیں۔
ساڑھے بارہ بجے ہماری گاڑی مستوج سے نکلی اور وادی لاسپور کی طرف بڑھنے لگی۔ موسم خوشگوار تھا اور ہمراہی زندہ دل، ایسے سفر کا کیا کہنا۔البتہ کارواں کی دوسری گاڑیاں لیٹ ہونے کے باعث مالکؔ صاحب کے چہرے پر اور میرے دل میں پریشانی بدستور جاری رہی۔ لیکن جن کے ساتھ فیضیؔ ہو تو بڑے سے بڑا غم بھی رفو چکر ہو جاتا ہے۔ ہمیں پتہ بھی نہ چلا کہ کب ہم وادی لاسپور کو پیچھے چھوڑ کر شندور کی چڑھائی چڑھنے لگے تھے۔ یہاں سے وادی کا نظارہ سورلاسپور اور دوسری طرف بشقرگول تک ہو سکتا تھا۔ ہم شندور روڈ کے غیر ضروری موڑ کاٹتے رہے۔یہ بھول بھلیوں والی سی اینڈ ڈبلیو ڈپارٹمنٹ کی انتہائی غیر مناسب ’شہکار‘ اور آر سی سی کے دو عدد پل صاف بتا رہے تھے کہ محض زیادہ سے زیادہ کمیشن بٹورنے کی خاطرجنوباّ انتہائی نامناسب سائڈ کا انتخاب کیا گیا تھاجو سال بھر سورج کی تمازت سے محروم رہتاہے او ر جہاں سرما کی پہلی برف اگلے جون تک جوں کا توں زندہ سلامت رہتی ہے اور جو ہر وقت مسافروں کے لیے جانی خطرے کا باعث ہے۔ اگر سروے کرنے والے انجنیئر ذرا بھی مخلص اور ایماندار ہوتا تو ایک ہی نظر میں انتہائی مناسب جگہہ ان کو نظر آجاتی جو بالکل سامنے شمال کی طرف ہے اور جو دن میں زیادہ وقت دھوپ میں ہونے کے سبب سے سردیوں میں زیادہ مدت تک خشک رہتی ہے۔ کم از کم ۵،۶ کلومیٹر کے اختصار کے علاوہ سرما میں بھی قابل سفر رہتی۔ اب بھی میری گزارش ہے کہ سورلاسپور سے شندور پاس سڑک شمال کی طرف سے بنائی جائے تاکہ مسافروں کو اعصاب شکن موڑوں اور طویل سفر سے نجات مل جائے۔
شندور ٹاپ اپنی سبز پوشاک کی جگہہ سنہری چادر اوڑھ رکھی تھی، البتہ شندور جھیل اپنے نیلے رنگ میں پر سکون تھی۔ کہیں کہیں میویشیوں کے ریوڑھ خزان کی آخری آزادی کا لطف اٹھا تے نظر آرہے تھے۔ ہم شندور کی سطح مرتفع (۱۲۵۰۰۰ فٹ بلند) سے گزرے۔ کاٹج ہوٹلوں کو بھی بند پایا۔ چترال سکاؤٹس کی پوسٹ بھی خاموش خاموش سی تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ اس سال شندور تہوار کے عدم انعقاد سب کو بے کل کردیا ہے۔ پولو گراؤنڈ بدستور دعوت کھیل دے رہا تھا،سرسبز تھا۔ ہوٹلوں کے مختصر صحن بھی شاداب تھے ۔شاید ان کو پانی دیا جاتارہا ہوگا۔ ہوٹلوں کو بند پاکر تھوڑا دلبرداشتہ ضرور ہوئے کیونکہ بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ آگے کہیں ہوٹل ملنا مشکل تھا۔ فضل مالک صاحب لانچ پیک ساتھ لائے تھے، مگر ان کو گرم کئے بغیر کھانے کا خیال اور اپنی صحت کی حالت متفق نہیں تھے۔ ہم نے شندور پیچھے چھوڑ دیا اور لنگر کی طرف اترائی اترتے ہوئے وادئ لنگر میں داخل ہوئے۔پہلے زمانے میں لنگر کا دلدلی میدان بید، جنگلی سفیدہ، اور دوسری جھاڑی بوٹیوں سے بھرا ہوا کرتا تھا اور اس کا بلورین پانی کے اندر ٹراؤٹ مچھلیاں تیر رہی ہوتیں۔اس مرتبہ لنگر کو دونوں قدرتی نعمتوں سے محروم پایا۔ سوائے گدھے گھوڑوں اور خوش گاؤ وغیرہ پالتو جانوروں کے کوئی قدرتی زندگی نظر نہیں آئی۔ لنگر کا میدان غبور کرکے بارست گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ندی کے کنارے ہم نے لانچ بکس کھولے اور ٹھنڈے ٹھار روسٹ، آنڈوں اور سینڈوچ سے پیٹ پوجا کی۔
یہاں تقریباّ ایک گھنٹہ آرام کیا۔ ہمارے قافلے کی دوسری گاڑیاں ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہی تھیں جو ہمارے لیے تشویش کا باعث بنیں۔ خاص کرکے مالکؔ صاحب کے چہرے پر پریشانی واضح نظر آرہی تھی۔ ہمیں چاروناچار آگے بڑھنا پڑا۔ ندئ چمرکھن کا پل غبور کرکے بارست کے خوبصورت گاؤں کے درمیاں سے گزرتے ہوئے کھلے چرنے والے گدھے گھوڑوں، مال میویشیوں اور اے کے آر ایس پی کے تعاون سے آباد جنگلوں کے سنہری اور روپہلی رنگ کا نظارہ کیا جنہوں نے بارست کے حسن میں بے تحاشا اضافہ کردیا تھا۔ پھر ہم تیرو، گولاغتوری، گولاغموڑی، ہندراب، پھنڈر ایک سے ایک خوبصورت گاؤنوں سے گزرے۔ یہ ضلع غذر کے سرحدی گاؤں ہیں۔ بعض مناظر کو اپنے تختۂ شعور پر اتارلیے ، جب کہ بعض ہماری آنکھوں کی گرفت میں نہ آسکے کیونکہ ڈاکٹر فیضیؔ کی چٹ پٹی اور میٹھی گفتگو ہمیں اپنے سحر میں مسحور کئے رکھی تھی۔
Sir really beautifully written, i really enjoy your articles i feel as i am sitting in front of you and listening to you live, truly amazing sir keep it up
Atta ullah
Riyadh ksa