رسم کوہ کنی

Javedدھڑکنوں کی زبان محمد جاوید حیات ندی میں غضب کی طغیانی تھی۔کیچڑ زدہ پانی موجیں مارتا تھا ادھر ادھر کی زمین کاٹ کے لاتا تھا ۔سیلاب کی صورت تھی گاؤں کے لوگوں نے اپنے فصلوں کو ایک بار بھی پانی نہیں دیا تھا۔سبزیاں،فصلیں ،پودے ،مخملیں گھاس، باغیچے،پھول سوکھ گئے تھے۔سارے گاؤں والوں کواحساس ہو گیا تھا کہ انھوں نے ناشکری کی ہے۔میں ندی کنارے بیٹھے یہ سب کچھ سوچ رہا تھا ۔سیلاب کا شور باتوں میں بدل گیا ۔۔۔آواز آئی حضرت انساں توبہ۔۔تیری نا شکری نے تجھے آزمائش میں ڈالا۔۔پانی بڑی نعمت ہے ۔ہاں ہاں ٹھنڈے چشمے،لہلہاتے کھیت۔سرسبز جنگل،کشادہ سڑکیں ،گاؤں گاؤں پاور ہاؤس۔صاف پانی کی نہریں سب بڑی نعمتیں ہیں حضرت انسان۔۔تم اپنے رب کی کو ن کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ آج سے تقریبا اٹھ مہینے پہلے جولائی2015ء چترال میں سیلابوں کا مہینہ تھا۔34 افراد شہید ہوئے،280 گھرانے تباہ ہوئے،پل، سڑکیں تباہ،زمینیں تباہ،پائپ لائنیں تباہ،اور چھوٹے بڑے بجلی گھر تباہ ہو گئے۔ہم سب ابل پڑے اور ساری نہریں بہا کر لے گئے۔حکومت حرکت میں آگئی۔امداد یں آئیں ۔وقتی طور پر مختلف محکموں نے تفصیلات طلب کئے۔ہیلی سروس شروع کیا گیا۔امدادی ایجنسیاں حرکت میں آگئیں ۔زخموں پر مرحم لگ گئی۔متاثریں کو شکایات رہیں ۔یوں ہوتا رہتا ہے۔۔۔مگر پھر تم سب سب کچھ بھول گئے۔کہ پھر سے گرمیاں آئیں گی۔پھر سے دریاؤں میں طغیانیاں آئیں گی۔پھر سے ہم بھپریں گے۔پھر سے پائپ لائینیں جن کی وقتی مرمت ہو چکی ہے تباہ ہوجا ئیں گی۔پھر سے نہریں ٹوٹینگی۔۔تم بھول گئے۔تم حکومت کی برگاہ میں آس لگا ئے ہوئے لوگ تن بہ تقدیر ہو۔۔تم نے بس تباہیوں پر تبصیرہ کیا ۔بس افسانے سناتے رہے۔تم جشنیں بھی مناتے رہے۔اس میں ہجوم کے ہجوم جمع ہوتے رہے۔ اب صورت حال گزشتہ سال سے بھی ابتر ہے۔ہم پھر سے امڈنے لگیں ہیں نہریں بہا کر لے جائیں گی۔عارضی مرمت شدہ لائین کٹ جائیں گی.پاور ہاؤس ایسے کو تیسی رہیں گی۔دریا اپنا حجم بڑہائیں گے۔لٹکوہ بمبوریت شہر سے کٹ جائیں گے۔سب ڈویژن مستوج کٹ جائے گا۔محکموں کاکام ہو رہا ہے تم آس لگائے بیٹھے ہو۔چترال ٹاؤں میں اندھیراہوگا۔اب کی بار پائپ لائنیں بھی خشک ہونگی۔بس ٹوٹئیوں میں سے اگسیجن گیس کی سریلی آواز آئے گی۔مگر سوال یہ ہے کہ تم تکیہ کرکے آس لگا کے کیوں ببیٹھے ہو۔اس سے بہتر نہیں تھا کہ کدال پھوڑا لیکے میدان میں اتر تے۔دنیا دیکھتی کہ ایک قوم ’’رسم کوہ کنی ‘‘ادا کر رہی ہے۔قسم سے اب تک سڑکیں بحال ہوچکی ہوتیں ۔پائپ لائینیں مرمت ہو چکی ہوتیں ۔نہریں بن چکی ہوتیں ۔سڑ کیں بحال ہوچکی ہوتیں ۔۔۔ لٹکوہ کے سارے کدال بردار شاشاہ سے شروع کرتے تو ان اٹھ مہینوں میں اپنے گھر کے راستے سے کہکشان ہٹاتے۔سب ڈویژ ن کے کدال بردار کوراغ سے شروع کرتے دنیا دیکھتی کہ یہ کوہ کن پہاڑ ریزہ ریزہ کرکے سڑک بنا چکے ہیں ۔ایون کے کدال بردار دریائے چترال میں اترتے۔لوگ دیکھتے کہ وہ اپنے کدال پھوڑے سے دریا کے لئے راستہ بنا چکے ہیں ۔مگر افسوس تم میں وہ رسم کوہکنی ہے ہی نہیں ۔بس برستے ہو احتجاج کرتے ہو۔دھائی دیتے ہو فریاد کرتے ہو۔اگر تم جذبہ تعمیر لے کے میدان میں اترتے تو ہر کوئی تمہارے ہاتھ میں ہاتھ دیتا۔میڈیا کا زمانہ ہے ویڈیوز بنتے تصویریں اترتیں ۔ڈونرز امڈ آتے۔۔مغرب آگاہ ہوتا۔فلاحی ادارے میدان میں اترتے۔۔ٹھیکیداروں کے منہ بند ہوتے۔کمیشن ہولڈر ہاتھ ملتے رہتے۔اس قوم کی پہچان بن جاتی۔۔۔قدرتی آفات امتحان ہیں آزمائش ہیں ۔زندہ قومیں آزمائشوں کاسامنا کرتی ہیں ۔تم لمبی چوڑی تقریر کرتے ہو کارکردگیاں گنواتے ہو۔نام کما تے ہو۔تم اس لئے ترقی نہیں کرتے۔کہ اپنے فرائض سے مخلص نہیں ہو۔ترقی یافتہ قوموں کا ہر فرد جس کو جو ز مہ د اری سونپی جائے اس کی تکمیل میں جان کھپاتا ہے۔وہ تبصرہ نہیں کرتا ۔اس کو تن دہی سے ’’اوون‘‘ کرتا ہے۔ہم لوگ انحصار کی لت میں گرفتار ہیں ہم نے خود انحصاری سیکھی نہیں ۔ترقی یافتہ قومیں دور کی سوچتی ہیں ہم سامنے کی سوچتے ہیں ۔قوم کی تعمیر جراٗت تعمیر سے ہوتی ہے۔ عمل کے لئے مہمیز چاہئے ہوتا ہے ۔۔اب ہم درماندہ ہو ۔دھائی کون سنے ایک رات میں تو سارے کام نہیں ہوسکتے]]>

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *