غالباً 1965 تک مڈل سٹنڈرڈ کا امتحانی سنٹر ہائی سکول چترال ہی تھا۔ لوٹکوہ اور سب ڈویژن مستوج کے سارے امیدوار یہاں امتحان دیا کرتے تھے۔یہ 1964 کے فروری کا مہینہ تھا۔ گھر سے چترال روانگی کی تاریخ یاد نہیں آرہی ہے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ 26 فروری کو ہمارا مڈل سٹنڈرڈ کا امتحان شروع ہونا تھا۔ اس حساب سے فروری کا آخری ہفتہ ہوگا جب ابو جان مجھے لے کر چترال روانہ ہوئے تھے۔ اس زمانے میں سردیوں میں برف باری بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ چارغیری ( لغل آباد) یارخون سے جب چلے تھے تو کم از کم ڈیڑھ دو فٹ برف پڑی تھی۔ ابو جب بھی چترال جانے کا پروگرام بناتے تو اس کی تیاری ایک ہفتہ پہلے شروع ہوا کرتی۔ وہ چترال جانے اور آنے میں دو ہفتے لگایا کرتے ان کا پڑاؤ پندرہ سولہ میل سے زیادہ نہ ہوتا تھا۔ اس لیے وہ زاد راہ کی تیاری کیلیے امی جان کو پورا ہفتہ دیا کرتے۔ ان کے ساتھ مزدور اور بار برداری کے لیے گھوڑے اور گدھے ہوا کرتے۔ ان سب کے لیے پندرہ دنوں کے لیے خوراک ساتھ لیا کرتے جس کا زیادہ حصہ پکی روٹیؤں (موٹی کیک نما روٹیوں) شوشپ اور کلچوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اپنے ساتھ چائے کی پتیلی، پیالیاں، چائے کی پتیاں، گاڑھا دودھ، گڑ، نمک الغرض سفر میں ضرورت کی ہر چیز ہوتی تھی۔ جانوروں کے لیے جو کا غلہ بھی ساتھ لیا کرتے۔ احتیاط کے طور پر ایک ڈیڑھ بوری بھوسہ بھی ساتھ لیا کرتے۔ سب سے بڑا مسلہ ان کے نسورا کا سٹاک ہوتا جس کے لیے تمباکو پسوانا اور مخصوص راکھ کا ذخیرہ کرنا ایک الگ سا ضروری کام ہوتا تھا۔ میرے بابا بغیر کھائے پیے دو چار دن نارمل زندگی گزار سکتے تھے ؛لیکن بغیر نسوار پانج منٹ بھی پرسکون نہیں رہ سکتے تھے۔ تمباکو کے ساتھ ملاکر نسوار تیار کرنے کیلیے صنوبر کے پتوں کو جلاکر راکھ حاصل کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں تیار نسوار کا رواج بالکل بھی نہیں تھا۔ نسواری لوگ تمباکو بھی اپنے ہی کھیتوں میں پیدا کیا کرتے اور نسوار بھی گھر میں تیار کیا کرتے تھے۔ یہ کام عموماً ہماری ایک مجذوب سید ذادی بیوہ پڑوسن کیا کرتی تھی۔ میرے بابا انکو “مہ بزرگ اسپسار” ( میری درویش بہین) کہا کرتے۔
ہم گھر سے رونہ ہوئے تو کل چار بندے تھے اور ایک گھوڑا جس پر زیادہ میں اور کبھی کبھی بابا بھی بیٹھا کرتے تھے۔ کچھ سامان ایک خورجین میں ذین کے پیچھے بندھا ہوا تھا۔ میرے اور بابا کے علاوہ نذُر خان چچا اور سید پھولکان زار بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میرے اور پھولوکانزار کا یہ پہلا سفر چترال تھا جبکہ بے چارہ نذر خان چچا اور بابا جان کوسینکڑوں مرتبہ اس ” سقر” کا کڑوا تجربہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں کی رفتار کچھ اسطرح ہوتی جیسے مٹر گشت پہ نکلے ہوں۔ کوئی راستہ چلتے مسافر مل گیا تو دو چار منٹ ان کے پاس کھڑے ہو کر حال احوال دریافت کی اور پھر چلنے لگے۔ ایک تو برف جم کر ٹریک سخت اور پھسلان تھی، دوسرا رفتار کا حال سبک رفتاری، ہم شام ڈھلے کارگین کے جماعت خانہ پہنچ سکے اور بابا نے اسی جماعت خانے کے لنگر میں رات گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ کوئی بندہ ملا تھا جس کے ہاتھ گھوڑے کو کہیں اصطبل والے گھر بھیجدیا۔ ہم نے اپنے اس پہلے سفر چترال کی پہلی رات بے آسرا مسافروں کی طرح جماعت خانے میں گزاری حالانکہ سو ڈیڑھ سو گز آگے جہاں خان لال اور دوسرے عزیز رشتے داروں کے گھر موجود تھے( جن کا بعد میں مجھے پتہ چلا) ۔پتہ نہیں بابا نے گارگین کے آغازہی میں جماعت خانے ٹھہرنے کا فیصلہ کیوں کر کیا تھا؟ آج تک میں حیران ہوں۔ اسی پہلی شام سے ہم نے زاد راہ سے خرچنا شروع کیا۔ دوسری رات تو اپنے گھر پرکوسپ میں گزاری اور گھر کی گرم روٹی کھائی۔ شاید تیسری رات بھی گرم روٹی پرواک میں ملی تھی۔ پرکوسپ سے بمشکل ہم پرواک پہنچ پائے تھے۔ پرواک لشٹ اور پرواک میں کم از کم تین فٹ برف موجود تھی۔ پرواک میں ہماری چچا زاد بہن (زوجہ خوش خان مرحوم) کے گھر رات بسر ہوئی تھی۔
اس کے بعد مجھے اچھی طرح یاد نہیں آرہا۔ ممکن ہے سفر کی تھکاوٹ اور بوریت نے گردو پیش کا منظر ذہن میں محفوظ ہونے نہ دیا ہو۔ تیسری رات شاید ہم نے کوراغ میں گزاری تھی۔ چوتھی رات مروئے میں آخون ذادہ کے ہوٹل میں قیام کیا اور بابا نے واپسی کی روٹیاں ان کے پاس امانت رکھ لی۔ آخون ذادہ نے ان پر کوئلے سے نشان لگا کر الماری کے سپرد کیا تھا۔ آخون ذادہ اور بابا میں پڑی آشنائی تھی۔ انہوں نے گرم گرم روٹی گھر سے منگوائی اور ہوٹل میں چاول پکایا۔ یوں پانج راتیں راستے میں گزاریں اور چھہ دن چلنے کے بعد ہم چترال پہنچ گئے تھے۔ سڑک کی حالت کیا بتاؤں۔ اکژ جگہوں سے گزرتے ہوئے میں آنکھیں بند کرلیتا تھا۔ برف کی موٹی تہوں میں ڈوبی چھاچھیلی، کڑاک، ںوڑ، درغالوش (داڑم گول) مروے ڑونز، میژی چار اور کاربتیڑی کی پونی ٹریکس گویا موت کے کنواں تھیں۔ بعض جگہوں میں گھوڑےکی پشت سے معمولی سامان بھی اتار کر کندھے پر اٹھانا پڑتا تھا۔ چترال سےقریب ہوتے ہوئے برف کی یہ حالت تھی کہ کوجو کے سامنے میژی چار کی پونی ٹریک پر برف کے اتنے اونچے اونچے تودےکھڑے تھے کہ ہم بڑی مشکل سے گھوڑا گزار سکے۔ جب چترال پہنچے تو قدیم بازار کے بیچوں بیچ چار چار پانج پانج فٹ برف تھی۔ زیادہ دوکانیں برف میں روپوش تھیں۔ دوکانوں کے دروازوں تک برف کاٹ کرگلیاں بنائی گئی تھیں۔ ہمیں اسمعلیہ ہوسٹل میں رہائش کی جگہہ دی گئی۔ اس ہوسٹل کے ساتھ مسافر خانہ اور ساتھ گھوڑوں کے لیے اصطبل بھی تھا۔ یہ جگہہ دور دراز علاقوں کے مسافروں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھی۔
بابا کا پروگرام تھا کہ وہ مجھے چترال پہنچاکر واپس جائیں گے لیکن وہ مجھے دل تنگ دیکھ کر اپنا ارادہ بدل ڈالا۔ چچا نذر خان اور پھولوکان زار کو گھر کے لیے سامان دے کر واپس کردیا اور خود ایون چلے گئے۔ ایوں میں میرے بابا کی پھوپی ذاد بہن ، دختر مہترآمان الملک مہتر ژاؤ مقتدا خان کی ماں تھیں۔ بابا ہردفعہ جب چترال آتے تو ان کو ملنے جایا کرتے۔ اس مرتبہ وہ کوئی دس دن گزار کر میرے امتحان کے اختتام پر ایون سے لوٹ آئے اور مجھے ساتھ لے کر گھر روانہ ہوئے۔ مجھے چترال بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ کوئی کشش مجھے نظر نہیں آئی تھی۔اس زمانے میں واش رومز کا تصور نہیں تھا۔ البتہ دریا کے کنارے دو تیں ڈرائی لیٹرین تھے جو نوغور کے اہلکاروں سے کبھی خالی نہ رہتے۔ اس وجہ سے بازار کے پیچھے غلاظت کی انتہا ہوتی اور بدبو ہر جگہہ پھیلا کرتی۔ امتحان چترال ہائی سکول کے امتحانی حال میں منعقد ہوا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارا سپرٹنڈنٹ اور نگران عملے میں کون کون تھے۔ اس زمانے کے امتحانی امیدوار کو اپنی ساری توجہ پرچہ حل کرنے پر مرکوز کرنا پڑتی تھی۔ نگرانوں کا منہ تکنے کی نہ عادت تھی اور نہ ضرورت۔ طلبا لفظ نقل سے نابلد تھے اس لیے امتحانی عملہ کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی قطعی ضرورت نہ تھی۔
]]>
Interesting!! why all the storis of journey to Chitral Town from Upper Chitral are almost same?
Dear sir great write up I appreciate the way you are sharing with us about culture and history of the area.
Lesson learning story for the youth of today who only dependent on the available resources and feel free of the tensions of the past and are not aware of their past.
great and appreciable work sir,we salute your memorial collection.
Dear sir,I felt v nice to see ur heartening,ancient and deep valued memories especially BaBa’s coordinations and exalted satisfactions for an ablest child. He knows that a time is not long, As the same child will b exceedingly powerful.So sir u the hero and king of Chitral Mastuj by the tremendous and magnificent efforts of respected loving FATHER…..
Greatest Memories
Dear Brar
Bojam. Der Aayad Drust Aayad
Thoroughly enjoyed reading the story. Life stories are always powerful. Thank you for sparing time for writing articles for you. May you live long!
DEAR… miki jan yaqeenan apki baatyn sabaq amooz hai….proud on you
kia baat hai ji,
Is dafa kamal se tehreer ki ha Sir Ap ne. parh kar boht kuch sekha.
سر آپ کا سفر نامہ پڑھ کر بہت اچھا لگا اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین
Very great Sir Aseer. Very very interesting account. Thanks for sharing with us your invaluable memories.
thank you mekki,very intresting and informative for young genaration of today.
Dear Aseer sb,
i Really enjoyed the story as always and please share with us your historical story.
thank you,