ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ
دروش پبلک سکول اور دروش ڈگری کالج کے بانی پرنسپل عزیز الرحمن مثالی استاذ تھے۔ وہ تدریس کو کل وقتی کام سمجھتے تھے۔ رات دن اس میں منہمک رہتے تھے۔ اساتذہ کا بے حد احترام کرتے تھے اور طلبہ و طالبات کے ساتھ عمر بھر کے لئے اپنا تعلق اور رشتہ جوڑے رکھنے کے حق میں تھے اور اپنا تعلق جوڑ کر رکھتے تھے۔ اس وجہ سے طلبہ کے والدین، اعزہ و اقرباء کے ساتھ بھی ان کا تعلق استوار رہتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر خلائق کا ہجوم امڈ آیا۔ خراب موسم کے باوجود ان کے جنازے پر ہزارووں کا مجمع اکھٹا ہوا۔ عزیر الرحمن مرحوم کا تعلق خیبر پختونخوا کی سابق ریاست چترال کے سابق حکمران سنگین علی کی نسل سے تھا۔ یہ خاندان کٹور کی ایک شاخ ہے۔ کٹور کے مقابلے میں چغتائی کہلاتا ہے۔ گزشتہ صدی میں آغا سعدی خان چغتائی اس خاندان کے نامور شخصیت گزرے ہیں۔ علم و ادب کے ساتھ تعلق اس خاندان کی پرانی میراث رہی ہے۔ عزیز الرحمن کے والد مرحوم خلیل الرحمن ریاستی دور میں دفتری امور اور نظام مالیہ سے وابستہ تھے۔ پڑھے لکھے اہلکار میرزہ کہلاتے تھے۔ اور یہ نام آج کل کے ہیڈ کلرک کا ہم معنی تھا۔ فارسی ادب میں ان کی تعلیم ہوئی تھی۔ آپ کے بڑے بھائی عطاء الرحمن مرحوم محکمہ جنگلات سے وابستہ ہوئے۔ چھوٹے بھائی امین الرحمن چغتائی نے تدریس کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔
احمد فراز کے شاگرد رہے۔ کھوار اور اردو میں شاعری کی اور نام پیدا کیا۔ ریکارڈ کے مطابق عزیز الرحمن کی ولادت کا سال 1938ء ہے۔ حصول تعلیم کے بعد آپ نے محکمہ صحت میں ملازمت اختیار کی۔ ون یونٹ کا زمانہ تھا۔ ٹریننگ کے لئے لاہور گئے۔ ان دنوں مسئلہ ختم نبوت پر دیگر علماء کے ساتھ مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ لاہور میں مولانا مودودی کے علمی کاموں سے آگاہی حاصل ہوئی اور مولانا کے حلقہ بگوش ہو کر واپس آگئے۔ اس کے بعد عمر بھر کسی عہدے کی لالچ کے بغیر جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ رہے۔ وفاداری بشرط استواری کے اصول پر جماعت اسلامی کے ساتھ اپنا تعلق نبھایا۔ زندگی کے نشیب و فراز میں آپ نے ماہر تیراک کی طرح پانی کی لہروں اور ہوا کے جھونکوں کا مقابلہ کیا اور ہر معرکے میں کامران و کامیاب ہوئے۔ دوران ملازمت امریکی محقق سموئیل ہوارڈ سلون کے ساتھ آپ کے تعلقات استوار ہوئے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ محمد اسماعیل سلون نام رکھا۔ اس تعلق سے 1979ء میں نوکری کو خیر آباد کہ کر برونکس امریکہ چلے گئے۔ 3سال گزار کر 1982ء میں واپس آئے۔ 1983ء میں آپ نے دروش کے تاریخی قصبے میں پہلی بار دروش پبلک سکول کے نام سے ایک معیاری تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ اور سکول کے آغاذ کے لئے یوم آزادی یعنی 14اگست کے دن کا انتخاب کیا۔
پہلے دن ایک کمرہ تھا۔18طلبہ اور طالبات تھیں۔ بلیک بورڈ پر “الف سے اللہ” لکھ کر پہلا سبق شروع کیا اور یہ سبق کا رگر ثابت ہوا۔ آج دروش پبلک سکول کے طلبہ و طالبات کا شمار میڈیکل، انجینئرنگ اور سول سروس کے کامیاب افسروں میں ہوتا ہے۔ 33سال کے طویل سفر میں ہزاروں طلبہ اور طالبات نے اس مادر علمی سے معیاری تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی سالوں میں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل مراد خان نیءّر مرحوم نے ان کو حوصلہ دیا۔ بار بار سکول آتے تھے۔ سکول کے بچوں کو آفیسرز میس میں بلاتے اور تھپکی دیا کرتے تھے۔ بلبل چترال مولانا عبد الحمید خان نے اپنا بیٹا کمال عبد الجمیل ان کے سکول میں داخل کیا۔ اس طرح تعلیم کے میدان میں ان کو قدم جما کر کام کرنے کا ماحول میسر آیا۔ ڈاکٹر فدا عزیز الدین کے ساتھ ان کی گہری دوستی تھی۔ ان کی بیٹی کلثوم فدا مرحوم کے اولین طلبہ میں سے تھی۔ کلثوم نے 1994ء میں ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ انجینئر وجیہ الدین اور ڈاکٹر محب الدین نے بھی اسی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ 1986ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دورہ چترال کے موقع پر دروش پبلک سکول کی کلثوم فدا، اسی سکول کے محب الدین اور عاطف احمد نے شندور کے مقام پر چترال کے روایتی لباس میں ملبوس ہو کر جنرل ضیاء کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ یہ تصویر میڈیا میں ہٹ ہوئی تھی۔
عز یز الرحمن مرحوم کو سکول سے محبت، پیار اور لگاؤ تھا۔ ان کے شاگرد اور سٹاف ممبر کہتے ہیں کہ آپ جھاڑو بھی دیتے تھے۔ پھولوں اور پودوں کو پانی بھی دیتے تھے۔ کھیل کے وقت طلبہ کے ساتھ مل کر والی بال بھی شوق سے کھیلتے تھے۔ ان کے مزاج میں بلا کی خودداری تھی۔ چندہ، ڈونیشن، عطیہ مانگنا انکی کی فطرت میں نہیں تھا۔ وہ نیکی کے کام چھپا کر ہی کرتے تھے۔ ان کی وفات کے دن معلوم ہوا کہ سینکڑوں طلبہ کی انہوں نے مالی مدد کی تھی۔ کوئی طالب علم کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے جاتے وقت ان سے اجازت لینے آتا تو چپکے سے دو تین ہزار روپے ان کی جیب میں رکھ دیتے اور پوچھنے پر مسکراتے ہوئے کہتے “ایک کپ چائے پی لینا”ان کومطالعے کا ذوق بہت زیادہ تھا۔ آٹھ گھنٹوں کے سفر میں دو موٹی موٹی کتابیں پڑھ لیتے تھے۔ نسیم حجازی کے ناول ان کو بہت پسند تھے۔ عزیز الرحمن مرحوم نفیس اور نستعلیق طبعیت کے مالک تھے۔ رکھ رکھاؤ کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ خندہ پیشانی اور تواضع کے ساتھ ہر ایک سے ملتے اور ہر ایک کو اہمیت دیتے تھے۔ لوگوں کی بڑی بڑی غلطیاں معاف کرتے اور کسی کی کوئی بات دل پر نہ لیتے۔ ان کی تین بچیاں پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ بڑا بیٹا رضا ء الرحمن گھر کو سنبھالتا ہے۔ چھوٹا بیٹا میزا ن الرحمن بھی زیر تعلیم ہے۔
ان کا شاگرد نائب مقصود علی خان سکول وائس پرنسپل رہا ہے۔ اب سکول اور کالج کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے ۔ عزیز الرحمن مرحوم نے جو سسٹم دیا ہے۔ وہ سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا لگایا ہوا پودا پھلتا پھولتا رہے گا۔ پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں