مجھ سے میرا اقتدار چھینا گیا
دھڑکنوں کی زبان محمد جاوید حیات میں پیدا ہو تے ہی مر گیا تھا۔مجھے کفنایا گیا مگر دفنانا باقی تھا۔ کہ میری دادی آمی میری پیشانی چومنے سرہانے آگئی۔کفن تھوڑی سی سرکا دی۔جب پیشانی چوم رہی تھی تو اس کو احساس ہواکہ مجھ میں رمق باقی ہے۔سانسیں سست سست چلتی ہیں۔تڑپ کر مجھے گود میں لے لی۔۔۔کہا کہ زندہ ہے۔۔۔میں کسی لیبر روم میں پیدا ہو تاتو کفنانے کی نوبت نہ آتی۔کتنی دوا دارو ٹسٹ وغیرہ ہوتے۔نرسیںِ ،ڈاکٹر،دائی،میری ماں،پھر اس کے ساتھ آئے ہوئے لوگ،پھر شاپنگ بیگ میں بھری داوائیاں۔۔۔میرا وزن کیا جاتا۔اور بتایا جاتاکہ میں تندرست ہوں۔۔۔بیچاری نرس کو کیا پتا کہ آگے چل کراور کتنی بار مجھے ۔۔کفنایا،، جائے گا۔میرا منہ لپیٹا جائے گا۔پھر کفن لپیٹا جائے گا۔پھر کفن سرکایا جائے گا۔۔ میرے منہ سے بات چھینی جائے گی۔۔میرے قہقہے مصنوعی ہونگے۔میرے پاوں میں بیڑیاں ہو نگی۔میں ،اسپند، کی طرح جلایا جاونگا۔میں خشخاش کی طرح پیسا جاونگا۔۔۔۔میں پھر سے زندہہوا۔۔میری ماں کہتی تھی۔میں مرا نہیں تھا بس سانس رکی تھی۔بعد میں بار بار میرا اس کا تجربہ ہوا۔کئی بار میری سائنسیں رکیںَ اب بھی دن میں کئی بار رکتی ہیں ۔میں ماں کی گود میں بادشاہ تھا۔باب کے کاندھوں پہ بادشاہ تھا۔با ورچی خانے میں بادشاہ تھا۔۔۔سارا خاندان میرا رعایا تھا ۔مجھے کسی چیز کی کوئی فکر نہیں تھی۔۔کپڑے کی سلوٹوں ،جوتوں پر گردو غبار،بالوں کی تراش خراش،مونچھو ں کا سٹائیل،۔۔۔۔اور کسی چیز کا کوئی غم نہ تھا۔۔۔پھر ایسا ہوا کہ مجھ سے سب کچھ چھینا گیا۔۔ماں کی محبت چھینی گئی۔باپ کی شفقت، بہنوں کی آرزریں ،اساتذہ کا حلوص ،دوستوں کے مشورے ۔۔سب چھین لئے گئے۔۔اب میں حیران ہوں۔مجھے یہ نہیں پتاکہ زندہ کس لئے ہوں۔غم دوران سے شکست کھا کے کفن چہرے پہ سرکاتا ہوں۔آنکھیں بند کرتا ہوں ۔مگر مجھے دفناتا کوئی نہیں ۔خون پسینہ ایک کر کے کماتا ہوں ۔ مگر میری جیب سے نوٹوں کو ہوا اڑاڑا کے لے جاتی ہے۔جیب خالی ہوتی ہے۔مگر بیٹے کو اس کی بائیک پسند نہیں ۔بیٹی کو جوتے پسند نہیں ۔چھوٹوں کو اپنی جیب خرچ پہ اعتراض ہے۔رشتہ داروں کو بے توجہی پہ اعتراض ہے۔مہما نوں کو بے اعتینائی پہ اعتراض ہے۔بیوی کو نااہلی پہ اعتراض ہے۔میں کفن منہ پہ سرکاتا ہوں۔ تاکہ اندھیرے اجالے میں فرق نہ کر سکوں ۔۔کوئی اجالا نہیں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔میں کلاس روم میں قناعت،صبر،برداشت،اور شرافت پر مبنی لمبی لکچر دیتا ہوں ۔مگر ان کا عملی مظاہرہ میرے گھر میں کہیں نہیں۔۔میں پھتروں کو کیا سمجھاوں میرے گھر میں سب پھتر ہیں ۔۔۔بس مجھے یقین سا ہے کہ مجھے،، اقتدار ،،سے ہٹایا گیا ہے۔میری شکستگی واضح ہے۔میں سب کے سامنے جوابدہ ہوں ۔۔۔۔پھر سب کہتے ہیں کہ میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں ۔۔اگر سب کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا میرے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا جائیگا؟یہ دنیا ،یہ پھول،یہ کانٹے،یہ گرمی ،یہ سردی،یہ خوشی ،یہ غم،،کیا یہ سب میرے لئے نہیں ہیںِ ۔کیا میرا ان پہ کوئی حق نہیں ہے۔مجھے اعتراض تو نہیں کرنی ۔۔۔۔یہ لو بیٹا جوان ہوا۔۔۔۔بہو بیٹی آگئی۔۔ان کی دنیائیں آباد ہو گئیں ۔۔۔۔میں ۔میں اضافی بوجھ ہوں ۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ مجھ سے ماں کی گود نہیں میرا اقتدار چھینا گیا ہے۔۔میری حکومت چھینی گئی ہے۔۔اب میں بے بال وپر ہوں ۔۔ایک عورت کا علام،ایک بچے کا خادم،ایک جھونپڑ ی کا نگران]]>
Beautiful Jawaid Sahab, Personal Space har insan k liay zaroori hota hy.. wo koi aor nahi, insan khud apnay ap ko da sakta hy. Ya ous ghari ya dinn ya haftoon ka nam hy, jis kay dawran, na ap shohar, na bap, na garany ka srbrah hotay hain, ap sirf ap hotay hain,, yahan k mulkoon ma ya riwaj mawjood hy hy, lakin hamaray han personal space ka koi tasawoor nahi hy..