Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

الفاظ کا موتی مالہ

دھڑکنوں کی زبان

 

محمد جاوید حیات

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سی ٹی پروگرام کے ورک شاپ کا اخری دن تھا۔ عبدالحفیظ خان نے بہت خوبصورت تقریب سجائی تھی ۔ ایک نریر تربیت معلمہ فاطمہ عزیز کو سٹیج بلا یا گیا کہ اپنے تاثرات کا اظہار کرے ۔وہ اللہ کا نام لینے اور فخرموجوات محمد ؐ کی تعریف کرنے کے بعد یوں مخاطب ہوئیں۔۔۔ قوموں کی بنیادیں تعلیم سے وابستہ ہوتی ہیں۔ میں ان بنیادوں کومضبوط کرویگی۔ میں کبھی معلمی کو ’’نوکری چاکری‘‘ نہیں کہونگی۔ میں اس کو خدا کا دیا ہوا ’’انعام اور مقام کہونگی۔۔ مجھے یقین ہے کہ استاد اللہ پاک خود چنتاہے جس قوم کو زندہ رکھنا چاہے اس عظیم اساتذہ سے نواز تا ہے۔

میں اس معلمی کو آزمائش سے تعبیر کرونگی ۔ اور پوری طرح آزمائش پر پورا اترنے کی کو شش کرونگی ۔اعلیٰ کردار اور تربیت میرا خواب ہے اور معلمی ہی کے ذریعے اس خواب کی تعبیر کرسکتی ہوں۔میرے سامنے روکاؤٹین ٹک نہیں سکیں گی ۔شام سویروں، دونوں مہینوں کا حساب نہیں لگا و نگی ۔ میرے پاس لمحوں لمحوں کا حساب کتاب ہوگا ۔میرے پاس تربیت کا گھٹن لمحہ ہوگا ۔میں کسی معصوم بچے کی زبان پہ آئے ہوئے لفظوں کو تولوں اگر کوئی غلط لفظ بولنے لگے تو اس کے منہ پہ انگلی رکھونگی اُس لمحے میں اس کی آنکھیں پڑھونگی۔

اس کی روح میں سرا ہت کرجاؤگی۔اس کی محبت سمیٹ لونگی اور اسی لمحے اس کے منہ میں آئے ہوئے لفظ کو موتی بنا و نگی میں معلم ہوں مجھے فخر ہے ۔ میری گذارش ہے کہ مجھے پسیوں سے نہ تو لا جائے ۔مجھے تنخواہ کی دلکشی نہ سمجھائی جائے ۔مجھے ٹرانسفر کی دھمکی نہ دی جائے ۔مجھے سٹسکو کا خوف نہ دلا یا جائے ۔مجھے حسد کا سبق نہ پڑھایا جائے ۔میں معلم ہوں درست ہے کہ میرے پاس چمکتی کرسی نہیں۔شاندار دفتر نہیں۔باہرچوکیدار نہیں، گن مین نہیں۔ رہنے کے لئے کوائٹر نہیں ۔لیکن ، لیکن میں جنت میں ہوں۔ فخر مو جوات ؐ نے بچوں کو جنت کا پھول کہا۔ میں پل پل جنت کے پھولوں میں ہوں۔میں خوش ہوں، مجھے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں میرے دن میری راتیں اس فکر میں گذرتی ہیں ۔میں اس سوز سے بلبلا اُٹھتی ہوں کہ میری گود کو پہلی درسگاہ قرار دیا گیا ۔ یہاں سے انسانیت پلتی ہے ۔اور آگے بڑھتی ہے پھر مجھے معلم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔۔ ’’ میرے طالب علم نالائق ہوں۔۔ یہ تو میر ی موت ہے۔ مجھے کسی وقت کا اندزہ نہیں ہوتا۔

میں جب کلاس روم میں داخل ہوجاؤنگی ۔۔ تو کا نوں سے بہری ہو جاؤنگی ۔ مجھے گھنٹی بچنے کی آوازسنائی نہیں دے گی ۔ مجھے انگلی پکڑ کے حروف لکھوانے ہیں باہر دھوپ ہے تو ٹھیک ہے ۔سہانا موسم ہے تو کیا ہوا۔۔ پھو ل کھلے ہیں کھلے ہو نگے ۔۔ کا ش میرے پاس وقت ہوتا ۔تو میں بھی دھوپ میں جاکے بیٹھتی۔ چائے منگواتی ۔ گھر سے فون ملاتی ۔ ساتھیوں سے گپ شپ لگاتی ۔ مگر میرے پاس وقت نہیں۔ مجھے ان کو شاہین بنا نا ہے۔بلند پرواز سکھا نا ہے ۔چٹان بنانا ہے ۔کردار کا تاج محل سجانا ہے اس لئے میرے پاس وقت کہان بچتا ہے ۔ میں جہاں کسی کی معصوم آنکھوں میں جھا نگتی ہوں تو اس سمندر میں ڈوپ جاتی ہوں۔ ان میں ڈوپ جانا اچھا لگتا ہے ۔مجھے تنخواہ کی کیا لالچ ہوگی میں عقید تیں اور محبتیں سمیٹ رہی ہوتی ہوں میں کسی کے دل میں آباد ہور ہی ہوتی ہوں کسی کی روح میں اُتر رہی ہوتی ہوں۔ کسی کی عقیدتوں کی منزل بن رہی ہوتی ہوں مجھے دیکھ کر جو آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اس چمک کی قیمت اس دنیا میں نہیں ۔اس کی تلافی اس دنیا میں نہیں ہیں دھائی نہیں دے رہی میں اس میدان میں للکار کے اتر رہی ہوں، میں شکست نہیں کھاو نگی۔ میں ہار نہیں مانو گی ۔ میں جیت جاؤنگی ۔ میر ے اردگرد پھول ہونگے ان پر بیٹھے بلبل چہچہا رہے ہونگے۔

میرے فضائیں میری تربیت کردہ شاہنوں سے سجیں گی ۔ہر گھر انگن میں میراسینچا ہوا یک پھول ہوگا ۔ وہ پورے خاندان کو معطر کریگا ۔ کسی معلم مربی کو کام نہ کرنے کا طعنہ دینا عجیب ہے اگر ایسا ہے تو بہت بُرا ہے ۔ یہ وقت یہ زمانہ یہ قوم اس کو معاف نہیں کریگی ۔ اس لئے کام نہ کرنے کا تصور کس طرح اُٹھتا ہے حیران ہوں یہ قوم حرف معلم ہاتھوں بن سکے گی ۔تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب معلم کے ہاتھوں آتے رہے ہیں ۔انکا دامن چومتی ہے ۔خوشحالیاں ان سے وابستہ ہیں۔ترقی ان کے گھر کی لونڈی ہے ۔میں ایک زندہ قوم کا فر د ہوں اس کوناقابل شکست بناؤ نگی ۔ میری دعا ہے کہ میری عمر کے لوگ اس عزم کے ساتھ معلمی کے میدان میں اُتری اور میری آرزو بھی یہی ہے ۔آرزو جب خواب بن جاتی ہے ۔تو بکھرتی نہیں شرمندہ تعبیر ہوتی ہے۔یہ آخری جملہ دعائیہ تھا ۔سارے شرکائے کو اس کی آنکھوں میں یہ عزم چمک بن کر اُتر آیا تھا ۔زیر تربیت باصلاحیت معلمہ کا ہر ہر لفط موتی لگا ۔یقین ہو چلا کہ یہ قوم زندہ ہے اچھا لگا کہ نئی نسل میں عزم ہے جذبہ تعبیر ہے صلاحیت ہے۔ قابلیت ہے نہ تھکنے کا وعدہ ہے ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایسے باصلاحیت افراد کی تربیت کررہی ہے۔ ورک شاپ ٹیوٹر جناب ضیا ء الدین صاحب نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ عبدالحفیظ خان سپر وائز ر نے خطاب کیا میں ایک کرسی پر دبکے بیٹھا تھا اور زیر لب دعا کر رہا تھا۔ آقا! اس قوم کو بے مثال بنا ۔۔ آمین۔

You might also like
2 Comments
  1. Sher Wali Khan Aseer says

    I admit there is some exaggeration what the trainee teacher has said as narrated by Mr. Javed Hayat but, the comments of Mr. Afzal Aman is too negative and poisonous. I wonder how he has learned from so bad teachers? And it is also questionable when he has said,”I bet you not a single teacher in Chitral had this commitment”. He must apologize for his filthy language.

  2. Afzal Aman says

    JAWAB E SHIKWA
    I bet you not a single teacher in Chitral had this committment. It is a fact those who do not find any other attractive career opt to go into teaching as a last option. Every single boy and girl no matter whether competent or incompetent could be seen struggling to become a doctor, engineer – the two favourit choices of Chitralis. At the end of the day when they see there is no chance of even making it to medical or engineering college, they choose different subjects and quite few of them manage to go to the universities. If we could go a few years down the road the concept of going to university was not that easy for majority of the girls and boys. After intermediate a good number of boys and girls were seen in Allama Iqbal Open University examination centres busy in cheating to to get a BA or a PTC cdrtificate. The lucky lot then got appointed as PTC teachers in different givernment school across Chitral till. And when PTI govt introduced NTS system, people who wanted good teachers for their children had a sigh of relief, thinking they may good some good people like at least BA for primary schools. However, the generation od pre 2013 era never witnessed any such jazba, josh, walwala, tantana (Sheikh Rashid’s favourit quotes) in their teachers. The teacher alomost majority used to enjoy teaching on the “chasht” by students turn by turn. Some badmash teachers even used the students for “posh nezik, gom leik, phordu boyik, shiyaq korik, sosiri bik” and what not. Honestly speaking the students of era who if managed to do sonething was mainly due to luck, their hardwork and the strictness of their parents. The role of the teachers used to be very discriminatory. The teachers always discouraged midocre students while being extra kind to a ratra maar so called laiq shagerd who later ended up in becoming PTC teachers. In a nutshell the people who go into teaching even today had no other option. Honestky speaking, a man with some qualification and conpetence will never end up in becoming a teacher. The picture which the author has portrayed here does not even exist in Chitral. So my humble request to the gentleman is that he must stop building in the air. We all know the teacher community, their contribution and their committment with the sacred profession if teaching. It us only the money which attracts them. And to substantiate my claim I would like to ask: how many teachers offer free of costs tutions to their students. I am sure there are none with exception to few. It would be unfair if skipped the transfer issues. I swear not a single teacher will ecen bother to go to school if there had been no monitoring system. And this the reason the teacher community is up in arms against govt plan to introduce biomatric system in the schools to ensure their attendence. As far as holding gun is concerbed, almost 90 percent teachers are found of hunting. I am optimistic Javed Hayat will cone with a critical piece next time about his community ir else we will be forced to belive that his sole purpose to write these small pieces nothing but to entertain his brethern in the profession.

Leave a comment

error: Content is protected!!